بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کا عدت کے دوران پنشن کی کاروائی کے لیے گھر سے باہر نکلنا


سوال

میرے چاچا  کا ابھی حال ہی  میں انتقال ہوا ہے، وہ گورنمنٹ ملازم تھے، جو ایک سال پہلے ریٹائرڈ ہوئے تھے، لیکن ان کی پنشن ابھی تک شروع نہیں ہوئی تھی، کافی مشکل میں گزارا کررہے تھے،  کیوں کہ وہ اپنے گھر والوں کے واحد کفیل تھے، بچے بھی کافی چھوٹے ہیں ، اب مسئلہ یہ ہے کہ ان کی بیوہ عدت میں ہے، لیکن پینشن کی کاروائی،  اب تمام چیزیں بیوہ کے نام پر ٹرانسفر ہونی ہیں ، جس کے لیے   انہیں نادرا  جانا ہوگا، تو کیا بیوہ بحالتِ مجبوری پردے میں جاسکتی ہے، کیوں کہ چار مہینہ ان کو گزارا بھی کرنا ہے تو پنشن کا کام جلد از جلد ہونا بھی ضروری ہے؟

اور یہ بھی دریافت کرنا ہے کہ  کیا وہ تصویر کھنچواسکتی ہے، کیوں کہ  عمومًا سرکاری اداروں میں مرد حضرات یہ کام کرتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ عدت کے دوران عورت کو  کسی شدید ضرورت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ہوتا، لہذا  صورتِ  مسئولہ میں اگر عدت کے دوران خرچ کا بندوبست ہوسکتا ہو،  یا خرچ کا بندوبست نہ ہوسکتا ہو، لیکن  پنشن کے وصول کی کاروائی بیوہ کے علاوہ گھر کا کوئی اور فرد کرسکتا ہو تو بیوہ کے لیے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہوگا،  لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو اور عورت کو خرچ میں تنگی پیش آرہی ہو تو  صرف اس کام کے لیے دن کے وقت پردے کے ساتھ   گھر سے  باہر نکلنے کی  گنجائش ہوگی، اور رات سے پہلے پہلے واپس اپنے گھر پر پہنچناضروری ہوگا۔

سرکاری  کاغذات  کے لیے قانونی مجبوری کی وجہ سے تصویر کھنچوانے کی گنجائش ہوگی، اس کا گناہ تصویر کھنچوانے  والے پر نہیں ہوگا۔

"البحرالرائق " میں ہے:

"(قوله: و معتدة الموت تخرج يوماً و بعض الليل) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلايحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلًا و لا نهاراً. والحاصل: أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها، كذا في فتح القديرَ" (4/166،دارالمعرفہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200919

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں