بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معتدہ وفات عدت کے دوران ناچاقی کی وجہ سے میکہ چلی جائے تو باقی عدت کہاں پوری کرے؟


سوال

 معتدہ وفات اگر حاملہ ہو تو عدت وضع حمل ہے اور شوہر کے گھر عدت گزارنا لازم ہے، لیکن اگر کوئی معتدہ وفات عورت سسرال والوں (دیور وغیرہ) کے ساتھ ناچاقی کی وجہ سے یا ویسے ہی چھ مہینے عدت شوہر کے گھر گزار کر میکے چلی جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اور  وضع حمل تک جو مدت عدت کی باقی ہے وہ میکے میں رہ کر گزار سکتی ہے یا سسرال جانا ضروری ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ معتدہ وفات  شوہر کے گھر میں  عدت گزار رہی تھی  تو اگر وہاں دیور وغیرہ سے لڑائی اور ناچاقی کی وجہ سے جان، مال ، سامان یا عزت وآبرو کا مسئلہ اور خطرہ تھا جس کی وجہ سے بیوہ اپنے میکہ چلی گئی  تو ان اعذار کی وجہ سے  وہ میکہ جانے کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوئی  اور اب وہ وہیں عدت مکمل کرسکتی ہے، اور اگر  بغیر کسی عذر کی وجہ سے وہاں سے نکلی تو یہ شرعًا ناجائز تھا، اب  اگر  شوہر کے گھر  میں کوئی خطرہ نہ ہو  اور وہاں لوٹنے میں کوئی مانع نہ ہو تو  وہیں عدت کے لیے  واپس چلی جائے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 205):

"وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة و لاتجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لاتنتقل، وإن كان المنزل لزوجها و قد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، و إن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقًّا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدلّ ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.

كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111201847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں