بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، دو بیٹے اور چار بیٹیوں میں ترکہ کی تقسیم


سوال

مرحوم زید کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں، بیوہ ابھی حیات ہے، دونوں بیٹے چاہتے ہیں کہ اپنی بہنوں کا اور ماں کا وراثتی حق ادا کریں۔ مرحوم کے دو مکان ہیں، جس کی لاگت آج کے حساب سے  1.5کروڑ ہے اور چار دوکان ہیں،دکان دونوں بیٹے چلا رہے ہیں۔ جوابدرکار ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کے  اخراجات نکالنے کے بعد، مرحوم کے ذمہ اگر کسی کا قرض ہو تو اسے کل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد، مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے ادا کرکے باقی کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو   64 حصوں میں تقسیم کرکے  8 حصے مرحوم کی بیوہ کو،  14, 14  حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور 7, 7  حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

یعنی ڈیڑھ کروڑ روپے میں سے  مرحوم کی بیوہ کو   12.50روپے، مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو  21.87 روپے  اور مرحوم کی ہر ایک بیٹی  کو   10.93 روپےملیں گے۔

نیز مرحوم کے انتقال کے بعد تمام ترکہ ورثاء کے درمیان مشترک ہوگیا ہے اور  تمام ورثاء اس میں اپنے حصوں کے اعتبار سے شریک ہیں،  والد کی دکان بھی ترکہ میں شامل ہے، اگر دکان میں سامان والد صاحب کا تھا اب وہ  اور اسی سے لیا ہو اضافی سب سامان  بھی ترکہ میں شمار ہوگا، اور اگر سرمایہ بیٹوں کا اپنا ہے تو صرف دکانیں ترکہ میں شامل ہوں گی، نیز تقسیم کرنے کے بعد بھائیوں کے تصرف  میں جو دکانیں ہیں اگر دیگر ورثاء بھائی اپنےمیراث کے حصے میں سے وہی دکان ان کو دینے پر رضامند ہوں تو بیٹوں کے لیے ان دکانوں کو اپنے تصرف میں رکھنا جائز ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200867

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں