اگر ہمارا دادا اپنی بیٹیوں کو اپنے مال سے حق نہیں دیتا، تو کیا اس کا حساب ہم پوتوں سے ہوگا؟
واضح رہےکہ اگر صاحبِ جائیداد اپنی زندگی میں اپنی جائیداد خوشی ورضامندی سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اورایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی ۔
لہذاصورت مسئولہ میں اگرسائل کےدادانےاپنی جائیداداپنےبیٹوں کودی اوربیٹیوں یعنی سائل کی پھوپیوں کومحروم کردیا یاان کومحروم کرناچاہتاہےتو وہ شرعاًگناہ گارہوگااس کےاس فعل کاگناہ صرف اسی کوہوگااس کےبیٹوں یاپوتوں کونہیں ہوگا۔
ارشادخداوندی ہے:
﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى﴾ [فاطر: 18]
ترجمہ : ’’اورکوئی دوسرےکابوجھ (گناہ کا)نہ اٹھائےگااوراگرکوئی بوجھ کالداہوا(یعنی گناہ گار)کسی کواپنابوجھ اٹھانےکےلئےبلائےگا(بھی )تب بھی اس سےکچھ بوجھ نہ بٹایاجائےگا،اگرچہ وہ شخص قرابت دارہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (بیان القرآن)
سنن ترمذی میں ہے:
"ألا لا يجني جان إلا على نفسه، ألا لا يجني جان على ولده، ولا مولود على والده."
(أبواب الفتن،باب ما جاء في تحريم الدماء والأموال،ج:4،ص:234،ط:دار الرسالة العالمية)
ترجمہ:’’سن لو! انسان کے جرم کا وبال اسی پر ہے، سن لو! انسان کے جرم کا وبال نہ اس کی اولاد پر ہے اور نہ اس کے باپ پر ہے۔‘‘
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
" وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: أكل ولدك نحلت مثله قال: لا قال: فأرجعه . وفي رواية ...... قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم.''
(باب العطایا،ج:1،ص:261، ط: قدیمی)
ترجمہ:’’حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟انہوں نے کہا ”نہیں “آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ …… آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔‘‘
(مظاہر حق، باب العطایا،ج:3،ص :193،ط: دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101880
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن