بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کی رقم سے حج کس پر فرض ہوتا ہے؟


سوال

ایک بندہ سعودی عرب میں کام کرتاہے اسکےوالدین حیات ہیں اورپاکستان میں رہتےہیں گھریلو اخراجات کاانحصارسعودی آمدن پرہے،نیاگھرتعمیرکیاگیاجس کیوجہ سےقرض بھی ہے جو اسی نےاداکرناہےاپنی اوردیگربہن بھائیوں کی شادی بھی کرنی ہے اب دریافت طلب امریہ ہےکہ والدین کےحیات ہونے کی وجہ سےسرپرست کون شمارہوگا یعنی اس کی آمدنی جوہےوہ والدین کی ملک شمارہوگی اور والدین پرحج فرض ہوگایااسی سعودیہ میں رہنےوالےشخص کاملک شمارہوگا دوسری صورت میں یعنی اسی شخص کاملک شمارہوتواس پرحج فرض ہو جائیگایا قرض اوردیگرضروری امور کیوجہ سے فی الحال حج فرض نہیں ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ حج اس عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہوتاہے جس  کے پاس ضروریاتِ زندگی کے پورا کر لینے، نیز اہل وعیال کے واجبی خرچے پورے کرنے کے بعد اس قدر زائد رقم ہو جس سے حج کےضروری اخراجات (وہاں کے قیام اور کھانے وغیرہ) اور  آنے جانے کا خرچ پورا ہوسکتا ہو۔لہذا اگرموجودہ رقم سے آپ کے اہل وعیال کا خرچ پوراہوتاہواور حج کے اخراجات بھی مکمل ہوسکتے ہوں تو حج فرض ہوگا،  ورنہ نہیں۔

 اور حج کی فرضیت میں اولاد یا والدین ایک دوسرے کے تابع نہیں ہیں، یعنی اولاد صاحبِ  استطاعت ہو اور والدین نہ ہوں تو والدین پر حج فرض نہیں ہوگا، اسی طرح اگر والدین صاحبِ استطاعت ہوں اور اولاد نہ ہوں تو اولاد پر حج فرض نہیں ہوگا۔

 لہذا مذکورہ شخص جو کچھ کماتا ہے وہ شخص ہی اس کا تن تنہا مالک ہےاور اگر اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال ہو تو یہ شخص ہی اس کی زکوۃ ادا کرے گا اور صاحب استطاعت ہونے کی صورت میں حج بھی اسی پر فرض ہوگا، البتہ اس کے ذمہ قرضہ ہونے کی وجہ سے اگر اس کے پاس قرض چکانے کا کوئی اور بندوبست نہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ پہلے قرض ادا کرے اس کے بعد حج ادا کرے ،الا یہ کہ قرض خواہ سے اجازت  لے کر حج پر جا سکتا ہے اور اس کے والدین پر حج فرض نہیں ہوگا اور اگر یہ شخص اپنی ساری رقم اپنے والدین کو دیتا ہے  اور انکو  اس کا مالک بناتا ہے تو اس صورت میں اس پر حج فرض نہ ہوگا بلکہ اس کے والدین صاحب استطاعت ہو جائے تو ان پر حج فرض ہوگا۔ 

"ہدایہ" میں ہے:

' الحج واجب علی الأحرار البالغین العقلاء الأصحاء إذا قدروا علی الزاد والراحلة فاضلاً عن المسکن، وما لا بد منه، وعن نفقة عیاله إلی حین عوده، وکان الطریق آمناً ووصفه الوجوب' ۔

الفتاوى الهندية (1/ 221):

"و يكره الخروج إلى الغزو والحج لمن عليه الدين وإن لم يكن عنده مال ما لم يقض دينه إلا بإذن الغرماء فإن كان بالدين كفيل إن كفل بإذن الغريم لا يخرج إلا بإذنهما، وإن كفل بغير إذن الغريم لا يخرج إلا بإذن الطالب وحده وله أن يخرج بغير إذن الكفيل كذا في فتاوى قاضي خان في المقطعات."

الفتاوى الهندية (1/ 217):

(ومنها القدرة على الزاد والراحلة) بطريق الملك أو الإجارة دون الإعارة والإباحة سواء كانت الإباحة من جهة من لا منة له عليه كالوالدين والمولودين أو من غيرهم كالأجانب...وتفسير ملك الزاد والراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، وهو ما سوى مسكنه ولبسه وخدمه، وأثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبا وجائيا راكبا لا ماشيا وسوى ما يقضي به ديونه ويمسك لنفقة عياله، ومرمة مسكنه ونحوه إلى وقت انصرافه كذا في محيط السرخسي.

المغني لابن قدامة (3/ 217):

"و يعتبر أن يكون هذا فاضلا عما يحتاج إليه لنفقة عياله الذين تلزمه مئونتهم، في مضيه ورجوعه؛ لأن النفقة متعلقة بحقوق الآدميين، وهم أحوج، وحقهم آكد، وقد روى عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «كفى بالمرء إثما أن يضيع من يقوت.» رواه أبو داود. وأن يكون فاضلًا عما يحتاج هو و أهله إليه، من مسكن و خادم و ما لا بد منه، و أن يكون فاضلًا عن قضاء دينه؛ لأن قضاء الدين من حوائجه الأصلية، ويتعلق به حقوق الآدميين، فهو آكد."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں