بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کا والد کو جوّے کے لیے رقم نہ دینے کا حکم


سوال

کمانے والا بیٹا جوّے باز والد کو رقم نہ دینے سے گناہ گار ہوگا یا نہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر بیٹا مستقل طور پر خود کمانے والا ہے، تو والد کا نفقہ ضرورت  کی حد تک بیٹے پر لازم ہے، تاہم ضرورت سے زائد خرچہ بیٹے کے ذمہ لازم نہیں ہے، لہذا  جوّے وغیرہ کے لیے والدرقم مانگے اور بیٹا نہ دے تو بیٹا گناہ گار نہ ہوگا۔

حاشية السندي على سنن ابن ماجه میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله «أن رجلا قال يا رسول الله إن لي مالا وولدا وإن أبي يريد أن يجتاح مالي فقال أنت ومالك لأبيك»

(يجتاح) بتقديم الجيم على الحاء المهملة، أي: يستأصله، أي: يصرفه في حوائجه بحيث لا يبقى لي شيء، وظاهر الحديث أن للأب أن يفعل في مال ابنه ما شاء، كيف وقد جعل نفس الابن بمنزلة العبد مبالغة، لكن الفقهاء جوزوا ذلك للضرورة. وفي الخطابي يشبه أن يكون ذلك في النفقة عليه بأن يكون معذورا يحتاج إليه للنفقة كثيرا، وإلا يسعه فضل المال، والصرف من رأس المال يجتاح أصله ويأتي عليه فلم يعذره النبي صلى الله عليه وسلم و لم يرخص له في ترك النفقة وقال له: أنت ومالك لوالدك على معنى أنه إذا احتاج إلى مالك أخذ منه قدر الحاجة كما يأخذ من مال نفسه، فأما إذا أردنا به إباحة ماله حتى يجتاح ويأتي عليه لا على هذا الوجه، فلا أعلم أحدا ذهب إليه من الفقهاء."

(باب ماللرجل من مال ولده،ج:2، ص:43، ط:دارالحيل) 

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144207201022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں