بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

بیٹوں نے والد کے پیسوں سے جائیدادیں خریدیں تو ان جائیدادوں کا کون مالک ہے؟


سوال

 ایک والد صاحب مثلًا زید ہے، اس کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں اور یہ چار بیٹے والد صاحب کے ساتھ شریک رہتے ہیں، والد صاحب نے کچھ جائیداد اور مختلف پلاٹ مثلا جیسے ایک جگہ پر (40X40)گز ایک جگہ پر دوسری جگہ پر (GP)فنڈ پر دس مرلہ پلاٹ خرید لیے ، اسی طرح دو تین بڑے بیٹے نے مثلًا عمر نے (40X40) بکرنے (40X40) طاہر نے 10 مرلہ پلاٹ خرید لیا اور چوتھا بیٹا تعلیم و تعلم میں مصروف تھا،  اس لیے اس نے کچھ نہیں خریدا،اب کیا  چوتھا بیٹا  علی اور پانچ بیٹیاں ان تمام جائیداد میں شریک ہوں گی یا صرف والد صاحب کی جائیداد میں شریک ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر تمام جائیدادیں بیٹوں نےوالدکے پیسوں سے خریدی ہیں ،یا والد کے کاروبار سے رقم لے کر پلاٹس خریدے  ہیں اور والد نے مذکورہ  پلاٹس(کی رقم یا پلاٹس خرید کر) اپنے بیٹوں کو شرعی طور پر ہبہ (گفٹ)نہیں کیے ہیں،  تو شرعا یہ تمام جائیدادیں والد کی شمار ہوں گی،والد کی زندگی میں مذکورہ تمام جائیدادوں کے مالک والد ہی ہیں۔

اگر بیٹوں نے مذکورہ جائیدادیں اپنی ذاتی رقوم سے خریدی ہیں،والد کے کاروبار سے رقم نہیں لی  یا والد نے بیٹوں کو مذکورہ پلاٹس(کی رقم یا پلاٹس خرید کر) شرعی طور پر ہبہ (گفٹ)کر دیے ہیں،تو جس بیٹے نے جو جائیداد/پلاٹ اپنے ذاتی پیسوں سے خریدا ہے یا اسے شرعی طور پر ہبہ(گفٹ) کیا گیا ہےتو شرعًا وہ اس کا مالک ہے،اس صورت میں دیگر بہن بھائی اس پلاٹ میں حق دار نہیں ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" أب و ابن يكتسبان في صنعة واحدة و لم يكن لهما مال فالكسب كله للأب إذا كان الابن في عيال الأب لكونه معينًا له، ألا ترى أنه لو غرس شجرة تكون للأب."

(کتاب الشركة، ج۲، ص۳۲۹، ط: دار الفکر)

الدر المختار و حاشیة ابن عابدین  میں ہے:

" دفع لابنه مالًا ليتصرف فيه ففعل و كثر ذلك فمات الأب إن أعطاه هبة فالكل له، و إلا فميراث و تمامه في جواهر الفتاوى."

(كتاب الهبة، فصل في مسائل المتفرقة، ج۵، ص۷۰۹، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں