بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو الحجة 1446ھ 13 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا بیٹوں کی موجودگی میں پوتوں کو وراثت میں سے حصّہ ملے گا؟


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا ہے، اس کے کل سات بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، جن میں سے ایک بیٹے کا ان کی زندگی میں ہی انتقال ہوگیا تھا، اب اس کی میراث میں مرحوم بیٹے کی بیوہ اور اس کی اولاد کا حصّہ ہوگا یا نہیں؟

نیز مرحوم کی میراث کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوگا؟

جواب

1۔ چونکہ میراث ان ورثاءکوملتی ہےجومورث کی وفات کےوقت حیات ہوں، اور مورث سے پہلے وفات پانے والے ممکنہ وارث کو، اسی طرح دیگر قریبی ورثاء کی موجودگی میں اس کی اولاد کو مورث کی میراث میں سے کچھ نہیں ملتا، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مرحوم والد کی میراث میں سے ان کی زندگی میں وفات پانے والے بیٹے کی بیوہ اور اس کی اولاد کو بطورِ حصّہ کچھ نہیں ملے گا۔

2۔ اگر بوقتِ وفات مرحوم کی بیوی اور ان کے والدین میں سے کوئی بھی حیات نہ ہوں، اور ان کے ورثاء میں صرف چھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہی ہوں تو ان کا ترکہ ان کے ورثاء کے درمیان  تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات، اگر مرحوم کے ذمّہ کوئی قرض ہو تو کل ترکہ سے اس کی ادائیگی کے بعد، اور اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو باقی مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 14 حصّوں  میں تقسیم کرکے 2/2 حصّے مرحوم کے چھ بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو اور ایک ایک حصّہ ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔ صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:14

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
22222211

یعنی فیصد کے اعتبار سے %14.284 مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور %7.142 ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل.....

وفي الرد: (قوله: ويقدم الأقرب فالأقرب إلخ) أي الأقرب جهة ثم الأقرب درجة ثم الأقوى قرابة فاعتبار الترجيح أولا بالجهة عند الاجتماع، فيقدم جزؤه كالابن وابنه على أصله كالأب وأبيه ويقدم أصله على جزء أبيه كالإخوة لغير أم وأبنائهم، ويقدم جزء أبيه على جزء جده كالأعمام لغير أم وأبنائهم وبعد الترجيح بالجهة إذا تعدد أهل تلك الجهة اعتبر الترجيح بالقرابة، فيقدم الابن على ابنه والأب على أبيه والأخ على ابنه لقرب الدرجة، وبعد اتحاد الجهة والقرابة يعتبر الترجيح بالقوة، فيقدم الأخ الشقيق على الأخ لأب، وكذا أبناؤهم، وكل ذلك مستفاد من كلام المصنف."

(كتاب الفرائض، فصل في العصبات، ج:6، ص:774، ط:ايج ايم سعيد كراتشي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں