بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹوں کی موجودگی میں پوتوں کو حصہ نہیں ملے گا


سوال

والد سے پہلے اگر بیٹا مر جائے تو اس کے بیٹوں کو جائيداد میں حصہ کیوں نہیں ملتا؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت نے  حقِ وراثت کا مدار  قوتِ قرابت داری پر رکھا  ہے، اللہ رب العزت نے ورثہ اور ان کے احوال وسہام کی تفصیل بتانے کے بعد واضح انداز میں فرمادیا ہے :آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿النساء: ١١﴾”تمہارے باپ دادا اور بیٹے تم نہیں جانتے کہ نفع رسانی کے لحاظ سے کون سا رشتہ تم سے زیادہ قریب ہے (اللہ تعالی کی حکمتِ بالغہ ہی اس کا فیصلہ کرسکتی ہے)اللہ تعالی نے یہ حصے ٹھہرادیے ہیں اور وہ (اپنے بندوں کی مصلحت کا) جاننے والا ہے(اپنے تمام احکام میں) حکمت والا ہے“۔پس میت کے ساتھ رشتہ میں جو زیادہ قریب ہوگا وہ استحقاقِ وراثت میں مقدم بھی ہوگا، اور اس کی موجودگی میں دیگر وہ رشتہ دار جو قرابت داری میں دور ہوں گے وہ محروم قرار پائیں گے،بیٹا چوں کہ پوتے کے مقابلہ میں اقرب (زیادہ قریب) ہے؛ اس لیے اصولاً وہی مستحق وراثت ہے؛ البتہ اگر میت کی وفات کے وقت اس کا کوئی بیٹا حیات نہ ہو اور پوتے پوتیاں حیات ہوں تو پوتے پوتیاں اس کے وارث بنتے؛ کیوں کہ اب ان سے اقرب کوئی موجود نہیں،لہذا پوتا علی الاطلاق محروم نہیں ہوتا، بلکہ اس وقت محروم ہوتا ہے جب کہ دادا کی دیگر مذکر اولاد موجود ہو۔ یہ تو  شریعت کا قانون  ہے۔

البتہ انسان کو اپنی زندگی میں آثارِ موت ومرضِ وفات سے پہلے اپنے کل مال میں تصرف کا حق حاصل ہے، نیز موت کے بعد ایک تہائی مال کی وصیت کا حق بھی حاصل ہے، لہٰذا جو رشتہ دار شرعی طور پر وارث نہ بن رہے ہوں لیکن وہ مستحق و ضرورت مند ہوں تو آدمی اپنی زندگی میں انہیں ہبہ کرسکتاہے اور مرنے کے بعد ایک تہائی ترکے کے اندر اندر ان کے لیے وصیت بھی کرسکتاہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں اخلاقی طور پر دادا کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پوتوں کی گزر بسر کے لیے کوئی انتظام کرکے جائے، خواہ وہ رجسٹرڈ وصیت کی شکل میں ہو یا زندگی میں ہبہ کے ذریعہ ہو۔ نیز چچا کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بھتیجوں اور بھتیجیوں کے ساتھ شفقت وہم دردی اور ایثار کا معاملہ کرے، اور یتیموں کی کفالت کے متعلق جو بشارتیں آئیں ہیں ان کا مستحق بنے۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ شریعت نے یتیم پوتے، پوتی کے حقوق کا خیال نہیں رکھا ہے، بلکہ یہ اسلامی احکام کا حسن ہے کہ ہر ایک کو اپنی حیثیت کے مطابق اس کا حق دیا گیاہے۔

البسوط للسرخسی میں ہے:

"وهذا الباب لبيان من هو عصبة بنفسه وهو الذكر الذي لا يفارقه الذكور في نسبة إلى الميت فأقرب العصبات الابن، ثم ابن الابن، وإن سفل، ثم الأب، ثم الجد أب الأب، وإن علا، ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب، ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب، ثم العم لأب وأم، ثم العم لأب، ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأم، ثم عم الأب لأب، ثم ابن عم الأب لأب وأم، ثم ابن عم الأب لأب، ثم عم الجد هكذا والأصل فيه قوله - عليه الصلاة والسلام - «ما أبقت الفرائض فلأولى رجل ذكر» معناه فلأقرب رجل ذكر."

(کتاب الفرائض،باب اصحاب المواریث،ج29،ص174،ط؛دار المعرفۃ)

الہذب فی علم اصول الفقہ المقارن میں ہے:

"وأمثلة وقوع الإجماع كثيرة، ومنها:1 - الاجماع على حرمة شحم الخنزير كلحمه.2 - الإجماع على ‌حجب ‌ابن ‌الابن بالابن.....الخ."

(‌‌المطلب الثاني في إمكان الإجماع،ج2،ص847،ط؛مکتبۃ الرشد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101795

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں