بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹوں کاوالدہ کو اذیت دینا، شوہر اور بیوی کا مشترکہ مکان خریدنا


سوال

میرے شوہر نے میری سونے کی چین فروخت کرکے اپنے نام ایک مکان  خریداتھا ، اس مکان میں تقریباتین حصے کی رقم میری تھی اور ایک حصہ شوہر نے اداکیاتھا ،  کیوں کہ اس کی قیمت میرے زیور سے اداکی گئی تھی اور میں نے وہ زیور اپنے لیے مکان  خریدنے کے واسطے ان کو دیا تھا ، میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ان کے ترکہ میں کوئی چیز نہیں تھی ، اب  اس مکان  میں  میرے دوبیٹے  رہتے ہیں جوکہ دونوں شادی شدہ ہیں اب و ہ  مجھے  اس مکان میں رہنے نہیں دے رہے ، آئے دن لڑتے رہتے ہیں ،چھوٹے بیٹے نے مجھے کہا کہ ادھر نہ آنا اوربڑے بیٹے نے ماموں سے کہا ہے کہ امی سے کہو کہ خود کہیں چلی جائیں اورمکان مجھے دے دیں ، میں مکان فروخت کرنا چاہتی ہوں ، میرابڑابیٹاکہتاہے کہ اسے  کوئی بیچ کر دکھائے ،میں دیکھتاہوں کیسے بیچے گا؟

دریافت یہ کرناہے کہ کیامیرے بیٹوں کا میرے ساتھ یہ رویہ درست ہے اورکیا میں یہ مکان فروخت نہیں کرسکتی  ؟کیایہ مکان میرے شوہر کے ترکہ میں تقسیم ہوگا؟

شوہر کے ورثاء یہ ہیں :بیوہ دوبیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں ، پھر بیٹی کا انتقال ہواور اس کے ورثاء یہ ہیں :شوہر ، والدہ ، ایک بیٹااور ایک بیٹی ہے ۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب سائلہ کے شوہر نے سائلہ کی سونے کی  چین فروخت کرکے ،اس رقم  سے مکان خریدااوراس  مکان خریدنے  میں کل رقم کے  تین حصے سائلہ کی رقم سے اداکیے اور ایک حصہ ان کے شوہر نے اپنی  رقم سے اداکیا  اور سائلہ کے بقول اس نے یہ چین اپنے لیے مکان  کی خریداری  کے لیے ہی دی تھی تو   مذکورہ مکان میں تین حصے سائلہ کا حق ہے اور ایک حصہ سائلہ کے شوہر کا ترکہ ہو کر اس کے تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا،    جس میں سائلہ شوہر کے حصہ میں سے بطور وارث  ساڑھے بارہ فیصد حصے کی مستحق ہے ، اب اگر یہ مکان قابل تقسیم ہے توسائلہ اپنے حصے میں خود مختارہے ،اسے فروخت کرسکتی ہے، مکان کا اکثر حصہ چوں کہ سائلہ کی ملکیت ہے ، اس لیے اگروہ بقیہ حصے کی رقم دیگر ورثاء کو ادا کردے تو یہ کل مکان اس کا ہوجائے گا، پھر وہ اس میں اپنی مرضی سے تصرف کرسکتی ہے ، سائلہ کے بیٹوں کا  مکان میں سائلہ کے  حصے پر  قبضہ کرکے  ان کونہ دینااور اس مشترکہ  مکان میں  رہائش نہ دینا شرعاجائز نہیں ۔

 نیزسائلہ کے بیٹوں کا سائلہ کو دھمکی دینا ، ان کو اذیت دینا اور ان سےبرا    رویہ  اختیار کرنا شرعاجائز نہیں ،بدترین گناہ ہے، والدین کو  تکلیف دینے کے والے بارے میں احادیث میں سخت وعیدیں  وارد ہوئی ہیں ۔

صحیح البخاری میں ہے:

وعن أنس: سُئِلَ النبي -صلى اللَّه عليه وسلم- عن الكبائر فقال: \"الإشراك باللَّه، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، وشهادة الزور\".

(كتاب الشهادات2/374ط: دار النوادر)

ترجمہ : حضرت انس (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبائر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا اور والدین کی نافرمانی کرنا کسی آدمی کا قتل کرنا جھوٹی گواہی دینا ۔

دار  قطنی میں ہے:

عن أنس بن مالك , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:  «لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه»

 (كتاب البيوع3/224ط:مؤسسة الرسالة، بيروت)

مجلة الأحكام العدليةمیں ہے :

        تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم.

                (الكتاب العاشر: الشركات،الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ص206،المادة 1073،ط:نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

شرح  المجلۃ میں ہے :

بان الشریک لہ شبھۃ الملک وحق التصرف فی جزء شائع غیر معین فی المال المشترک فبعد تحقق المنفعۃبالایجار تقسم علی حصص الملک

(انواع الشرکات  المادۃ  1077۔1/480ط:رشدیہ)

 ردالمحتار میں ہے:

إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

(کتاب الحدود 4/61 ط:سعید)

مرحوم کے ترکے کی تقسیم  کا شرعی طریقہ یہ  ہے کہ سب سے پہلے   مرحوم  کے حقوقِ متقدّمہ یعنی تجہیز وتکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعد  اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ  سے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی  میں سے نافذ کرنے کے بعدباقی  کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو2592 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو 366حصے، مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو  504،504حصے،مرحوم کی ہرایک زندہ  بیٹی کو252،252حصے ، مرحوم کی فوت شدہ بیٹی کے شوہر کو 63حصے اس کے بیٹے کو 98حصے اور اس کی بیٹی کو 49 حصے  ملیں گے ۔

صورت تقسیم یہ ہے :

 میت:2592/72/8

بیوہ  بیٹابیٹا بیٹی بیٹی بیٹی بیٹی بیٹی 
17
9141477777
324504504مرحومہ252252252252

میت:36/12  بیٹی مف 7

شوہر والدہبیٹابیٹی 
327
96147
63429849

یعنی 100روپے میں سے مرحوم کےبیوہ کو14.120روپے،   مرحوم  کے  ہر ایک بیٹے کو 19.444 روپے ،اور اس کی ہر ایک زندہ بیٹی کو9.722روپے اور اس کی فوت شدہ بیٹی کے شوہر کو 2.430 روپے ، اس کے  بیٹے کو3.780 روپےاوراس کی بیٹی کو 1.890 روپے ملیں گے ۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144304100201

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں