بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹیوں کی شادی کے لیے رکھے پلاٹ پر زکات کا حکم


سوال

اگر بیٹیوں کی شادی کے لیے پلاٹ رکھا ہو تو کیا اس پر زکات بنتی ہے؟

جواب

اگر مذکورہ پلاٹ خریدتے وقت یہ نیت تھی کہ بیٹیوں کی شادی کے وقت اسے بیچ کر شادی میں خرچہ کریں گے، تو یہ تجارتی پلاٹ ہے اور دیگر اموال کے ساتھ اس پر بھی زکات واجب ہے۔ اور اگر پلاٹ خریدتے وقت بیچنے کی نیت نہیں تھی تو مذکورہ پلاٹ پر زکات واجب نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:172، ط : دار الفكر):

"(و منها فراغ المال) عن حاجته الأصلية، فليس في دور السكنى و ثياب البدن و أثاث المنازل و دواب الركوب و عبيد الخدمة و سلاح الاستعمال زكاة."

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:2، ص:265، ط : دار الفكر):

"(و أثاث المنزل و دور السكنى و نحوها) و كذا الكتب و إن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة. (قوله: وأثاث المنزل إلخ) محترز قوله نام و لو تقديرا، و قوله و نحوها: أي كثياب البدن الغير المحتاج إليها و كالحوانيت و العقارات."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:2، ص:11، ط : دار الكتب العلمية):

"و أما فيما سوى الأثمان من العروض فإنما يكون الإعداد فيها للتجارة بالنية؛ لأنها كما تصلح للتجارة تصلح للانتفاع بأعيانها بل المقصود الأصلي منها ذلك فلا بد من التعيين للتجارة و ذلك بالنية."

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتویٰ ملاحظہ کرسکتے ہیں:

پلاٹ میں رہائش اور بیچنے، دونوں کی نیت ہے تو زکاۃ کا حکم

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں