بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹیوں کی پرورش میں ناانصافی کرنا


سوال

 میں نے شادی کی ہے میری بیوی کے پہلے شوہر سے بھی دو بچیاں تھی، وہ بھی میں نے اپنے پاس  رکھی اور اپنے  بچو ں کی طرح دس سا ل پرورش کی اور دس سال میں میری بھی دو بچیا ں پید اہوئیں  اسی بیوی سے، میری بیو ی اپنی ماں کے پیچھے لگتی ہے ،میری ساس کی تیسری شا دی ہے اور میر ی بیوی کی بھی تیسر ی شادی ہے ۔

میر ےساتھ مسٔلہ یہ ہے کہ  میر ی بیوی جب جاتی ہے تو اپنے  پہلے شو ہر کی بچیاں ساتھ لے جا تی ہے اور میر ے سے ہونے والی بچیاں  میر ے پا س چھو ڑ جا تی ہے، میں اسے کہتا ہوں  کہ یہ بھی تمہا ری بچیاں ہیں ، تم ان کو بھی لے جاؤ، میں ان کا خر چہ دو ں گا ،میر ی سا س کہتی ہے نہیں یہ تمہاری بچیا ں ہیں ، میر ی بیٹی کی نہیں ،تم رکھو تمہیں پتا چلے، سر میر ی ایک بچی پانچ سال کی ہے اور دوسر ی چھ سال کی، فتو ی دیں  کہ میں اکٹھ پنچا یت میں دیکھا سکوں کہ میر ی بیوی  میری بچیاں رکھے جب تک بڑی نہ ہو جاۓ۔

جواب

واضح رہے کہ سائل کی بیوی کی وہ بچیاں جو پہلے شوہر سے ہیں اور وہ بچیاں جو سائل سے  ہیں ،سب کی سب سائل کی بیوی کی  بیٹیاں ہیں ،سائل کی بیوی کا پہلے شوہر کی بچیاں اپنے ساتھ لے جانا اور باقی بچیوں کو سائل کے پاس چھوڑ کرجا نا اور یہ سمجھنا  کہ یہ میری بیٹیاں نہیں ہیں ،درست نہیں ہے ،یہ بچیوں کے درمیان ناانصافی  اور ان کے حق میں زیادتی ہے ،لہذا سائل کی بیوی کو چاہیے کہ وہ سب بچیوں کو اپنی بیٹیاں  سمجھے ،سب کی پر ورش کا خیال رکھے ۔

حدیث میں ہے :

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»".

(مشکاة المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں