بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹیوں کو روپے کے عوض بیچنا


سوال

بیٹیوں کو روپے  کے عوض بیچنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ خریدو فروخت   اور تجارت کے صحیح ہونے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ ایک طرف مال اور دوسری طرف ایسی چیز ہو جو ثمن بننے کے صلاحیت رکھتی ہو، اس بنیادی شرط کے پاۓ جانے کے بعد  ہی بیع و شرا (خرید و فروخت)صحیح ہوسکتی ہے۔ آزاد  انسان  مال بھی نہیں ہے اور انسان اپنی اولاد کی جان کا مالک  بھی نہیں ہوتا، بلکہ انسان کی اپنی جان اور اپنا جسم بھی  اس کے پاس اللہ تبارک و تعالی کی امانت  ہے، جس  سے  وہ حدود میں رہ کر نفع تو حاصل کرسکتا ہے لیکن اُسے  اپنی ہی جان پر  ایسی ملکیت حاصل نہیں کہ وہ اپنی جان یا اپنے کسی عضو  کو ہبہ یا فروخت کرسکے؛ لہٰذا  اپنی بیٹی کو پیسوں کے عوض بیچنا  بھی جائز نہیں ہے ۔

چنانچہ فتاوٰی شامی میں ہے :

" هو مبادلة شيء مرغوب فيه بمثله على وجه مخصوص...ومحله المال."

( الدر المختار: كتاب البيوع ، (١/٥٠١) ط: سعيد)

اسی طرح "فتاوی عا لمگیری" میں ہے:

"وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْوَاهِبِ، فَهُوَ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ مِنْ أَهْلِ الْهِبَةِ، وَكَوْنُهُ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ يَكُونَ حُرًّا عَاقِلًا بَالِغًا مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ حَتَّى لَوْ كَانَ عَبْدًا أَوْ مُكَاتَبًا أَوْ مُدَبَّرًا أَوْ أُمَّ وَلَدٍ أَوْ مَنْ فِي رَقَبَتِهِ شَيْءٌ مِنْ الرِّقِّ أَوْ كَانَ صَغِيرًا أَوْ مَجْنُونًا أَوْ لَا يَكُونُ مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ لَا يَصِحُّ، هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ. وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْمَوْهُوبِ فَأَنْوَاعٌ، مِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا وَقْتَ الْهِبَةِ فَلَا يَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَوْجُودٍ وَقْتَ الْعَقْدِ ... ومِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَالًا مُتَقَوِّمًا فَلَا تَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ أَصْلًا كَالْحُرِّ وَالْمَيْتَةِ وَالدَّمِ وَصَيْدِ الْحَرَمِ وَالْخِنْزِيرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، وَلَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُطْلَقٍ كَأُمِّ الْوَلَدِ وَالْمُدَبَّرِ الْمُطْلَقِ وَالْمُكَاتَبِ، وَلَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُتَقَوِّمٍ كَالْخَمْرِ، كَذَا فِي الْبَدَائع."

(4 / 374، کتاب الھبة، ط؛رشیدیة)

نیز فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وَأَمَّا حُكْمُهَا فَوُجُوبُ الْحِفْظِ عَلَى الْمُودَعِ وَصَيْرُورَةُ الْمَالِ أَمَانَةً فِي يَدِهِ وَوُجُوبُ أَدَائِهِ عِنْدَ طَلَبِ مَالِكِهِ، كَذَا فِي الشُّمُنِّيِّ".

 (4/338، کتاب الودیعہ، ط؛رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200110

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں