بیٹیوں نے اپنے والد اور بھائیوں کے سامنے اپنے میراث کے حصہ کو معاف کر دیا، اب ان کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے، کیا اب ان کا دعوی کرنا صحیح ہے؟ اور والد صاحب کے نام کوئی پراپرٹی نہیں تھی۔
واضح رہے کہ کسی وارث کا اپنے حصہ پر قبضہ کیے بغیر معاف کرنے سے میراث میں سے اس کا حصہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ بدستور برقرار رہتا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر بیٹیوں نے والد مرحوم كي جائيداد ميں سے اپنا حصہ قبضہ کیے بغیر میراث سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا تو اس سے والد کی میراث میں سے ان کا حق ختم نہیں ہوا، لہذاانہیں والد مرحوم کی جائیداد (منقولہ اور غیر منقولہ ) میں سے اپنے حصہ کے مطالبہ کا حق حاصل ہے۔
’’الأشباہ والنظائر‘‘میں ہے:
لَوْ قَالَ الْوَارِثُ : تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْكِ۔
(ما یقبل الإسقاط من الحقوق/ج:1/ص:316/ط:دارالکتب العلمیة)
فتاوی شامی میں ہے:
الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط۔
(مطلب : واقعة الفتوی/ج:7/ص:505/ط:دارالفکر)
وفیہ ایضا:
ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه لأن الإرث جبري لا يصح تركه۔
(باب دعوی النسب/ج:8/ص:89/دارالفکر) فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144112200801
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن