بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی سے غیر اخلاقی حرکت کرنا


سوال

 میرے شوہر نے اپنی سگی بیٹی کے ساتھ غیر شرعی عمل کیا ہے ۔وہ عمل جو میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے ۔پیچھے سے اور منہ میں بھی اور یہ عمل دو سے تین بار ہوا ہے ،ویسے دو سال سے وہ چھیڑ خانی کر رہے تھے۔ اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے پہلی بار جب اس شوہر نے یہ حرکت کی تھی اس وقت وہ بچی گیارہ سال کی تھی اور اب دوبارہ جب یہ حرکت کی ہے تو وہ 13 سال نو ماہ کی ہے۔

 

جواب

واضح رہے کہ  اگر کوئی شخص اپنی جوان بیٹی یا مراہقہ ( نو سال کی عمر کی )بیٹی کو شہوت کے ساتھ  بلا حائل ہاتھ لگائے یا بدکاری کرے، تو اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے۔ اور اس شخص کی بیوی اس پر ہمیشہ کیلئے حرام ہوجاتی ہے۔دوبارہ اس کے ساتھ  رہنے کی کوئی صورت نہیں رہتی۔

 لہذا صورت مسؤلہ میں اگر واقعۃ سائلہ کے  شوہر نے سوال میں مذکورہ   شرمناک حرکت  اپنی گیارہ سالہ بیٹی کے ساتھ کی ہے  تو اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہوگئی اور عورت (سائلہ) اس پر ہمیشہ کیلئے حرام ہوگئی ہے اب دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔اس پر لازم ہے کہ  سائلہ سے علیحدگی اختیار کرےاور زبان سے کہہ دے کہ میں نے  تم  کو چھوڑ دیا یا طلاق دے دی  ۔ اس کے بعد عدت گزار کر سائلہ  دوسری جگہ نکاح کرسکے گی نیز مذکورہ لڑکی کو  والد کے پاس  اکیلا نہ چھوڑا جائے تاکہ مزید کوئی غلط حرکت سرزد نہ ہونے پائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الدر  وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطء بها لا يكون زنا.

وفي الرد :(قوله: وبحرمة المصاهرة إلخ)قال في الذخيرة: ذكر محمد في نكاح الأصل أن النكاح لا يرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه أو لم يشتبه عليه. اهـ.(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ.وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها.وقيل: لا تكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم."

(کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات ،ج:3،ص:37،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"كفرقة، أو متاركة لأن عدة هؤلاء لتعرف براءة الرحم وهو بالحيض، ولم يكتف بحيضة احتياطا.

وفی الرد (قوله: لأن عدة هؤلاء إلخ) جواب سؤال حاصله لم كانت عدة هؤلاء بالحيض ولم يعتبروا فيهن عدة وفاة ط (قوله: لتعرف براءة الرحم) أي لأجل أن يعرف أن الرحم غير مشغول لا لقضاء حق النكاح إذ لا نكاح صحيح والحيض هو المعرف (قوله: ولم يكتف بحيضة) كالاستبراء لأن الفاسد ملحق بالصحيح احتياطا منح."

(کتاب الطلا ق،باب العدۃ،ج:3،ص:518،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا نظر الرجل فرج ابنته بغير شهوة فتمنى أن يكون له جارية مثلها فوقعت منه شهوة مع وقوع بصره قالوا إن كانت الشهوة وقعت على ابنته حرمت عليه امرأته وإن كانت الشهوة وقعت على التي تمناها لا تحرم؛ لأن نظره في هذه الصورة إلى فرج ابنته لم يكن عن شهوةً."

(کتاب النکاح ، باب ثالث، قسم ثانی ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۷۴، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويشترط أن تكون المرأة مشتهاة، كذا في التبيين. والفتوى على أن بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها، كذا في معراج الدراية.

وقال الفقيه أبو الليث ما دون التسع سنين لا تكون مشتهاة وعليه الفتوى، كذا في فتاوى قاضي خان. وحكي عن الشيخ الإمام أبي بكر - رحمه الله تعالى - أنه كان يقول: ينبغي للمفتي أن يفتي في السبع والثمان أنه لا تحرم إلا إن بالغ السائل أنها عبلة ضخمة جسيمة فحينئذ يفتي بالحرمة، كذا في الذخيرة والمضمرات."

(کتاب النکاح ، باب ثالث، قسم ثانی ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۷۵، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101369

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں