میں کینیڈا میں رہائش پذیر ہوں اور میری کچھ جائیداد پاکستان میں بھی ہے، میری صرف ایک ہی بیٹی ہے۔ کیا میں اپنے ترکے میں سے اپنی بیٹی کو ملنے والے نصف وراثتی حصے کے علاوہ ایک تہائی حصہ اپنی بیٹی کو وصیت کر سکتا ہوں؟
اگر دین میں اس کی اجازت نہیں تو میرے انتقال کی صورت میں میرے ورثا کے حصوں کا تعین فرما دیجیے!
ورثاء: ایک زوجہ، ایک بیٹی، 2بھائی، 5 بہنیں۔جب کہ میرے والدین کا انتقال ہو چکا ہے۔
شریعت نے انسان کو اپنی زندگی میں اپنے مال میں ہر جائز تصرف کا پورا حق دیا ہے اور اپنے ورثاء کے علاوہ کے لیے ایک تہائی مال کے حوالہ سے وصیت کرنے کا محدود اختیار بھی دیا ہے، جب کہ ورثاء کا حق خود مقرر کردینے کی وجہ سے ان کے حق میں وصیت کے اختیار کو بزبانِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم "لاَ وَصِيّةَ لِوَارِثٍ ...الحديث" ختم کردیا گیا ہے، البتہ وارث کے حق میں کی جانے والی وصیت کو عاقل وبالغ ورثاء کی اجازت پر موقوف کردیاہے؛ اس لیے اگر وصیت ورثاء کے حق میں ہو تو اس کا نفاذ دیگر ورثاء کی رضامندی پر موقوف رہتا ہے، اگر وہ اجازت دے دیں تو وصیت قابلِ عمل ٹھہرتی ہے ورنہ کالعدم ہو جاتی ہے۔
لہذا اگر آپ اپنی بیٹی کے لیے ایک تہائی مال کی وصیت کرتے ہیں تو وہ وصیت دوسرے ورثاء کی اجازت پر موقوف رہے گی، اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور وہ اپنی رضا وخوشی سے اس وصیت کے نفاذ کی اجازت دیں تب بیٹی کو ایک تہائی مال دیاجائے گا، ورنہ وارث کے حق میں وصیت کالعدم شمار ہوگی۔
البتہ اگر آپ اپنی زندگی میں اپنے مال میں سے ایک تہائی کے بقدر اپنی بیٹی کو دے دیتے ہیں اور اس مال کا مکمل قبضہ اور تصرف بھی بیٹی کے حوالے کردیتے ہیں تو اس صورت میں یہ مال بیٹی کی ملکیت شمار ہوگا اور اس کے علاوہ دیگر ورثاء کا اس میں حق نہ ہوگا۔ اور آپ کے انتقال کی صورت میں وہ حسبِ قاعدہ آدھے مال کی وارث ٹھہرے گی۔
شرعی قاعدہ یہ ہے کہ نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں مرحوم کے بہن بھائی بھی وارث بنتے ہیں، اگر کسی شخص کا انتقال ہواور صلبی اولاد میں صرف بیٹی ہو تو نصف بیٹی کو ملتا ہے، اور آٹھواں حصہ (12.5%) بیوہ کو اور بقیہ مال بہن بھائیوں میں اس طرح تقسیم کیاجاتاہے کہ بھائیوں کو بہنوں کی بہ نسبت دگنا ملتا ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144201200769
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن