بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی کی شادی میں تاخیر کا گناہ


سوال

کیا اسلام میں کوئی ایسا مسئلہ موجود ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کی شادی جان بوجھ کر دیر سے کرے تو اُس شخص کو قیامت کے دن اس لڑکی کا گندہ خون یعنی حیض پلایا جائے گا؟

جواب

اولاد جب بڑی ہوکر شادی کے قابل ہوجائےتو والدین کو جلد سے جلد ان کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر ان کے نکاح کا بندوبست کرنا چاہیے، یہ ان کی شرعی ذمہ داری ہے،  بچوں کے شادی کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد اگر والدین  بلا کسی عذر، یا رسم وراج کی وجہ سے   ان کی شادی  میں تاخیر کریں اور اس وجہ سے وہ گناہ میں مبتلا ہوجائیں تو  والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔ حدیث شریف میں ہے:

"و عن أبي سعيد و ابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»."

(مشكاة المصابيح (2/ 939)

ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔

"وعن عمر بن الخطاب وأنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً ولم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان."

(مشكاة المصابيح (2/ 939)

ترجمہ: تورات میں درج ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے، پھر لڑکی سے کوئی گناہ ہوجائے تو باپ بھی گناہ گار ہوگا۔

تاہم آپ نے جو بات سوال میں ذکر کی ہے، ذخیرہ احادیث میں بہت تلاش کے باوجود یہ بات نہیں مل سکی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200756

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں