بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی کی شادی کے بدلہ پیسے لینے کا حکم


سوال

 ہمارے بلوچستان میں ایک قوم آباد ہے جس میں شادی کا رواج کچھ ایسا ہےکہ لڑکی کا باپ اپنی لڑکی دینے کےلیے قیمت وصول کرتا ہے جو تقریبا تین سے چار لاکھ تک شروع ہوتی ہے اسی طرح قیمت وصول کرکے پھر ہی اپنی بیٹی کی شادی کروا دیتے ہیں یاد رہے کہ حق مہر اسکے علاوہ ہے جو کہ دلہے کی مرضی کے مطابق تقریباً رائج الوقت مقرر ہوتا ہے، اسی طرح کسی کی منگنی نہیں ہوتی ہے تو وہ بھی یہی طریقہ اختیار کرتا ہےکہ کئی لاکھ دیکر اپنی بات پکی کرتا ہے اور پھر جب چاہے شادی کرتا ہے، اب پوچھنا یہ تھا کہ کیا لڑکی کے باپ کو یہ رقم لینا جائز ہے۔؟ اور اگر لڑکی کا باپ غریب ہو اور اس پر تین سے چار لاکھ قرضہ ہو تب کیا حکم ہے۔؟ مزید یہ کہ جس قوم میں لڑکے کی منگنی اور شادی کےلیے اس کے علاؤہ کوئی چارہ نہ ہو تو کیا یہ رقم دے کر منگنی اور شادی کر سکتے ہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں نکاح کے موقع پر بدل اور عوض کے طور پر اگر کسی چیز کو لازم قرار دیا ہے تو وہ صرف مہر ہے، جو کہ شرعاً بیوی کا حق ہے، شوہر پر مہر کی ادائیگی شرعاً ضروری ہوتی ہے، اسی وجہ سے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگر کسی کا مہر دس درہم سے کم یا سرے سے مہر ہی متعین نہیں کیا جائے تو بھی شوہر پر مہر  مثل  کی ادائیگی لازم ہے،مہر کی کم از کم مقدار شریعت نے دس درہم (30.618 گرام چاندی) مقرر کی ہے، زیادہ سے زیادہ مقدار شریعت نے متعین نہیں کی، باہمی رضامندی سے مہر کی جو مقدار طے ہوجائے شوہر پر اس کی ادائیگی لازم ہوتی ہے، البتہ شریعت نے مہر میں بہت زیادہ زیادتی کرنے کو ناپسند فرمایا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بوجھ کم سے کم پڑے، مہر میں سہولت ملحوظ رکھنے کو شریعت نے اس لیے پسند فرمایا تاکہ معاشرہ بے حیائی اور فحاشی سے محفوظ رہے اور ضرورتِ انسانی پورا کرنے کا حلال راستہ نوجوانوں کے لیے آسان سے آسان تر رہے، مہر کے علاوہ کسی قسم کی  رقم نکاح کے موقع پر شریعت نے لازم نہیں کی ہےلہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ علاقے کا جوارواج ہے کہ بیٹی کی شادی کے بدلے تین یا چار  لاکھ روپے لیتے  ہیں یہ رقم لینا  شرعا جائز نہیں ہے اور رشوت کے زمرے میں آئےگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌أخذ ‌أهل ‌المرأة شيئا عند التسليم فللزوج أن يسترده) لأنه رشوة

(قوله عند التسليم) أي بأن أبى أن يسلمها أخوها أو نحوه حتى يأخذ شيئا، وكذا لو أبى أن يزوجها فللزوج الاسترداد قائما أو هالكا لأنه رشوة."

(کتاب النکاح , باب المهر جلد 3 ص: 156 ط: دارالفکر)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو تزوج امرأة على أن يهب لأبيها ألف درهم ‌فهذا ‌الألف لا يكون مهرا ولا يجبر على أن يهب فلها مهر مثلها، وإن سلم الألف فهو للواهب وله أن يرجع فيها إن شاء."

(کتاب النکاح , الفصل الرابع فی الشروط فی المهر جلد 1 ص: 308 ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411101304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں