بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی کی پرورش اورحضانت کا مسئلہ


سوال

جناب میں اپنے شوہر کی دوسری بیوی ہوں ان کی اپنی پہلی بیوی سے طلاق ہو چکی ہے اور ان سے ایک بیٹی بھی تھی وہ انہوں نے لے لی ہے ، آپ مجھے بتائیں کہ میرے شوہر کو گناہ تو نہیں کہ وہ اس بیٹی کے حقوق پورے نہیں کر پا رہے ،کیونکہ وہ بیٹی اس نے اپنے نام لکھوا لی تھی کہ باپ  اس سے کوئی تعلق نہیں رکھے گا۔

جواب

واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسے بچوں کی تربیت ماں اورباپ (اپنے اپنے دائرہ کارمیں ) دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے ، تاہم ابتدائی چندسالوں میں شریعت نے پرورش ماں کے ذمہ لگائی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی بھی اس جیسی تربیت نہیں کرسکتا، اورپرورش سے متعلق یہ تفصیل ہے کہ لڑکی نوسال کی عمرتک ماں کی پرورش میں رہے گی، لیکن اگرعورت بچے کے کسی غیرمحرم سے نکاح کرلے تواس سے یہ حق ساقط ہوجائے گا۔اورنوسال کے بعدوالدبچی کواپنی تحویل میں لے سکتاہے،اورجب تک بچی اپنی والدہ کی پرورش میں ہےا س  کے نفقہ(خرچہ) کی ذمہ داری والد پرلازم ہے، اور نوسال کےبعدجب والدبچی کواپنی تحویل میں لے لےتوجب تک بچی کی  شادی نہ ہوجائے اس وقت تک والد کی حیثیت اوربچی کی ضرورت کے مطابق  نان نفقہ کی ذمہ داری شرعاً والد پرلازم ہے۔

لہذاصورت مسئولہ میں اگرمذکورہ بچی کی عمرنوسال سے کم ہے تواسے اپنی ماں کے حوالے کرنادرست ہے،البتہ سائلہ کے شوہرکاسابقہ اہلیہ کوبیٹی لکھ کردینے سے وہ اس کےحقوق سےبرئ الذمہ  نہیں ہوسکتا ۔

              فتاوی شامی میں ہے:

"(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي ( أم الأم ) وإن علت عند عدم أهلية القربى ·········· ( والأم والجدة ) لأم أو لأب(أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية ·········· (وغيرهما أحق بها حتى تشتهي) وقدر بتسع وبه يفتى."

 ( الدر المختار، كتاب الطلاق، باب الحضانة ۳/ ۵٦۲ إلى ۵٦٦ ط: سعيد)

            فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة........ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة ."

(الفتاوى الهندية، الباب السابع عشر في النفقات ، الفصل الرابع في نفة الأولاد۱/ ۵۶۳،۵۶۰ ط:رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں