بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی کے ساتھ دواعی زنا سے حرمت مصاہرت کا حکم


سوال

زید نے اپنی سگی بیٹی سے تین مرتبہ متفرق طور پر وطی فی غیر الفرج کی ہے، اور انزال بھی ہوا ہے،  اور متعدد بار بچی سے جو کہ 14 سالہ ہے، پاؤں دبواتے ہوئے شرمگاہ کو بلاحائل پکڑوایا ہے اور انتشار پیدا ہوا ہے، مگر ابتداءً ہاتھ لگانے سے نہیں بلکہ بسیار رگڑنے کے بعد ، اور بچی کی فرج کو  بھی ہاتھ لگایا ہے اور سینے پر بھی، مگر شہوت کے آثار معدوم تھے یعنی انتشار ِ آلہ  (آلہ میں سختی وغیرہ نہیں آئی)، والد کی عمر 38 سال ہے، اور دس بچوں کا باپ ہے، بیوی کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا ، اپنے فعل پر  ندامت بھی سخت ہے ، کیا اس پوری صورت ِ حال میں حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی یا نہیں؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقع  کے مطابق اور  درست ہے تو زید  کی اپنی بیٹی کے ساتھ   مذکورہ حرکات شرعًا، اخلاقًا اور معاشرتی لحاظ سے انتہائی قبیح اور بری ہیں، والد کا اپنی  بیٹی کے ساتھ  اس طرح کا تعلق ناجائز اور حرام ہے،   جس پر اسے صدق دل سے   توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے، اور زید کی مذکورہ حرکات  یعنی 14 سالہ بیٹی سے شرم گاہ کا بلا حائل پکڑوانے اور اس سے انتشار ہونے اور بیٹی کے سینے اور فرج پر ہاتھ لگانے جیسی کسی ایک حرکت سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، لہذا مذکورہ صورت میں  حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگئی ہے، اور زید  کی  بیٹی کے اصول وفروع  زید   پر حرام ہوگئے ہیں اور   اس کی بیوی بھی  اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی ہے۔اب اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق یا آزاد کرنے کے الفاظ استعمال کرکے اس سے ہمیشہ کے لئے  علیحدگی اختیار کرلے۔

الدرالمختار میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قلبه أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي ابن كمال وغيره."

(3/ 32، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: سعید)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(قبل أم امرأته)  في أي موضع كان على الصحيح جوهرة (حرمت) عليه (امرأته ما لم يظهر عدم الشهوة) ولو على الفم كما فهمه في الذخيرة (وفي المس لا) تحرم (ما لم تعلم الشهوة) لأن الأصل في التقبيل الشهوة، بخلاف المس.

(قوله: على الصحيح جوهرة) الذي في الجوهرة للحدادي خلاف هذا فإنه قال لو مس أو قبل، وقال لم أشته صدق إلا إذا كان المس على الفرج والتقبيل في الفم. اهـ. وهذا هو الموافق لما سينقله الشارح عن الحدادي، ولما نقله عنه في البحر قائلا ورجحه في فتح القدير وألحق الخد بالفم. اهـ. وقال في الفيض: ولو قام إليها وعانقها منتشرا أو قبلها، وقال لم يكن عن شهوة لا يصدق، ولو قبل ولم تنتشر آلته وقال كان عن غير شهوة يصدق وقيل لا يصدق لو قبلها على الفم وبه يفتى. اهـ.فهذا كما ترى صريح في ترجيح التفصيل، وأما تصحيح الإطلاق الذي ذكره الشارح، فلم أره لغيره نعم قال القهستاني: وفي القبلة يفتى بها أي بالحرمة ما لم يتبين أنه بلا شهوة ويستوي أن يقبل الفم أو الذقن أو الخد أو الرأس، وقيل إن قبل الفم يفتى بها، وإن ادعى أنه بلا شهوة، وإن قبل غيره لا يفتى بها إلا إذا ثبتت الشهوة. اهـ.وظاهره ترجيح الإطلاق في التقبيل لكن علمت التصريح بترجيح التفصيل تأمل."

(3/ 35,36، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100525

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں