بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی کے ساتھ زنا کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے اپنی سگی بیٹی سے زنا کیا متعدد بار، اب اس کی بیوی تو اس کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی، تو  اب معلوم یہ کرنا ہے کہ شریعت میں اس کے لئے کیا حکم ہے؟ آگے اسے کیا کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ زنا ایک ناجائز اور حرام کام ہے اور اگر اپنے محارم میں سے کسی کے ساتھ زنا کیا جائے، تو اس کی قباحت اور شناعت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے   اور زنا کے نتیجے میں دونوں کے اصول اور فروع ایک دوسرے پر ہمیشہ حرام ہوجاتے ہیں، لہٰذا اگرکسی شخص نے اپنی بیٹی کے ساتھ زنا کرلیا، تو سب سے پہلے  اس پر لازم ہے کہ صدقِ دل سے اللہ کے حضور توبہ اور استغفار کرے اور آئندہ اس طرح کے فعل کے نہ کرنے کا پختہ عزم کرے اور چوں کہ اس کا اپنی بیوی کے ساتھ رہنا اب جائز نہیں ہے، لہٰذا اس پر لازم ہے کہ فوراً اپنی بیوی کو  طلاق دے کر اس سے علیحدگی اختیار کرے۔نیز اس شخص کے لیے بہتر یہ ہے کہ  تنہائی میں اپنی بیٹی سے ملاقات نہ کرے تاکہ کسی قسم کے فتنے میں ابتلاء کا احتمال نہ رہے ۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"والزنا محرم بجميع أنواعه وحرمة ‌الزنا ‌بالمحارم أشد، وأغلظ فيجتنب الكل."

(كتاب الكراهية، ج:6، ص:19، ط:المطبعة الكبرى)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (‌أصل ‌مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة)."

"(قوله: وحرم أيضا بالصهرية ‌أصل ‌مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها. اهـ."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:32، ص: سعيد)

وفيه أيضا:

"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطء بها لا يكون زنا."

"(قوله: وبحرمة المصاهرة إلخ)قال في الذخيرة: ذكر محمد في نكاح الأصل أن النكاح لا يرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه أو لم يشتبه عليه. اهـ.(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ.وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها.وقيل: لا تكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم."

(کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات ،ج:3،ص:37،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100541

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں