میں اپنی بچی کا نام اسوۂ نور (Uswa e Noor) رکھنا چاہتا ہوں، راہ نمائی فرمائیں ۔
“ اسوۂ نور“ دو لفظوں سے مرکب ہے،”اسوۂ “ کے معنی مثال اور نمونہ کے ہیں ، جب کہ لفظ”نور“ کے معنی روشنی، تجلی اور چمک کے آتے ہیں۔
“ اسوۂ نور“ کا معنی : روشن مثال اور نمونہ ہے ، معنی كے لحاظ سے تو اس نام كے رکھنے کی گنجائش ہے ، تاہم بہتر یہ ہے کہ زاواج مطہرات ، صحابیات رضی اللہ عنہن اور امت کی برگزيده خواتين کے اسماء میں سے کسی نام کا انتخاب کرکے اس کے موافق نام رکھنا زیادہ بہتر ہے ۔
اس سلسلہ میں ہماری ویب سائٹ پر موجود اسلامی نام کے سیکشن سے بھی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔
حديث شريف میں ہے:
"حَقُّ الْوَلَدِ عَلَی وَالِدِہٖ اَنْ يُّحْسِنَ اسْمَه."
”باپ پر بچہ کا حق ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے“۔
(شعب الإیمان للبیهقی،باب في حقوق الأولاد والأهلين، ج:11، ص:104، ط:مكتبة الرشد)
ايك اور حديث ميں ہے:
"إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ، وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ."
” بے شک تم لوگ قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء و اجداد کے ناموں سے پکارے جاؤگے، لہٰذا تم اچھے نام رکھو۔“
(سنن أبي داود، كتاب الأدب، باب في تغيير الأسماء، ج:4، ص:287، ط:المكتبة العصرية)
تاج العروس میں ہے:
"والإسوة، بالكسر وتضم) : الحال التي يكون الإنسان عليها في اتباع غيره إن حسنا وإن قبيحا وإن سارا أو ضارا؛ قاله الراغب. وهي مثل (القدوة في كونها مصدرا بمعنى {الإئتساء، واسما بمعنى ما} يؤتسى به، وكذلك القدوة. يقال لي في فلان {أسوة أي قدوة."
(باب الواو و الیاء، فصل الهمزة مع الواو والياء، ج:37، ص:75، ط:دار إحياء التراث)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604101619
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن