بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی کے نام پر كنيت ركهنا


سوال

 کیا بیٹی کے نام پر اپنی کنیت رکھ  سکتے ہیں؟ بیٹے اور بیٹی میں سے کس کے نام کی کنیت رکھنا زیادہ بہتر ہے؟

جواب

’’کنیت‘‘  اسے کہا جاتا ہے، جس میں ’’اَب‘‘ یا ’’اُم‘‘ (باپ یا ماں)  ہونے  کی  طرف نسبت  ہو، مثلاً :  ابو القاسم  ﷺ،  ام  سلمہ  رضی  اللہ  عنہا۔  لیکن کنیت کے  لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی اولاد بھی ہو،   اگر کسی کی اولاد نہ ہو تو اس کے لیے بھی کنیت رکھنا جائز ہے، جیساکہ نبی کریم ﷺ نے ایک چھوٹے بچے کی کنیت ”ابو عمیر“ رکھی تھی۔  عربوں  میں کنیت  رکھنے کا بہت رواج  تھا، اور  وہ  بچوں  کی بھی کنیت  رکھ  دیا کرتے  تھے۔ نیز کنیت انسانوں کے لیے  کسی اور چیز کی طرف منسوب کرکے رکھنا بھی جائز ہے مثلاً: ابو ہریرہ، ابو تراب۔

لہذا اگر آپ کنیت رکھنا  چاہتے ہیں تو  اچھی کنیت  رکھ  سکتے ہیں،خواہ  وہ بیٹے کی طرف منسوب ہو یا بیٹی کی طرف جو مناسب معلوم ہو تا ہو۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 3061):

" - «عن أنس - رضي الله عنه - قال: إن كان النبي صلى الله عليه وسلم ليخالطنا حتى يقول لأخ لي صغير: " يا أبا عمير ما فعل النغير؟ " كان له نغير يلعب به فمات» . متفق عليه.

وفي المرقاة:  قال: وجواز تكني الصبي ولايدخل ذلك في باب الكذب. قلت: لأنه قصد به التفاؤل".

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (5/ 382):

"وأما الكلام في الكنية؛ فكان عادة العرب أنه إذا ولد لأحدهم ولد كان يكنى به، وامرأته كانت تكنى به أيضًا، يقال للزوج: أب فلان، ولامرأته: أم فلان، كما قيل: أبو سلمة، وامرأته أم سلمة، وأبو الدرداء، وامرأته أم الدرداء، وأبو ذر، وامرأته أم ذر، وكان الرجل لايكنى له ما لم يولد له، ولو كنى ابنه الصغير بأبي بكر، أو غيره كره بعضهم؛ إذ ليس لهذا الابن ابن اسمه بكر ليكون هو أب بكر، وعامتهم على أنه لايكره؛ لأن الناس يريدون بهذا التعالي أنه سيصير في ثاني الحال، لا التحقيق في الحال".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں