بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کو گھر ہدیہ کرنا


سوال

میں بیرون ملک میں رہتی ہوں اور میرا ایک مکان ہے، اور میرے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، ان میں سے تین بیٹے اور ایک بیٹی اور بیرون ممالک میں رہتے ہیں اور مالدار ہیں، البتہ ایک بیٹا کراچی میں رہتا ہے،اور اس کی مالی حیثیت کمزورہے نیز بے روزگار بھی ہے، چنانچہ میں اپنا  مکان اپنے اس بیٹے کو ہدیہ/گفٹ کرنا چاہتی ہو اور  اس کے نام کرنا چاہتی ہوں، اور میرے اس فیصلے پر میرے  بقیہ تمام بیٹے اور بیٹیاں راضی ہیں،  تو میرا یہ ہدیہ/گفٹ  کرنا شرعا درست ہے یا نہیں؟ اور اگر شرعا درست ہے تو ہدیہ/گفٹ کرنے کی صورت میں میرے مرنے کے بعد   صرف میرا مذکورہ بیٹا اس گھر کا مالک ہوگا؟ یا میری دیگر  اولاد کا بھی حصہ ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ ميں  اگر  سائلہ اپنا ذاتی  ملکیتی مکان اپنے ایک بیٹے کو  اس کی مالی حیثیت کمزور ہونے کی وجہ سے ہبہ کرنا چاہتی ہے اور دیگر ورثاء اس فیصلے پر راضی ہیں تو سائلہ اپنے اس بیٹے کو اپنا مکان ہدیہ/ گفٹ کرسکتی ہے، شرعا کوئی حرج نہیں، البتہ ہبہ کرنے کے لیے  مکان صرف نام کردینا کافی نہیں ہوتابلکہ جسے ہبہ کیا جاے  اسے مالکانہ حقوق کے ساتھ مکمل قبضہ دینا بھی ضروری  ہوتا ہے ،اس لیے  سائلہ کو چاہيے کہ  گھر بیٹے کو ہدیہ کرنے کے بعد  اس کا مکمل   قبضہ بھی بیٹے کو دے دے، قبضہ دینے کی صورت یہ ہے کہ اگر سائلہ کا سامان وغیرہ مذکورہ گھر میں  موجود نہیں ہے تو ہدیہ کی صراحت کر کے گھر بیٹے کے حوالے کردے  اور اگر اس گھر میں سائلہ کا سامان وغیرہ موجود ہے  تو سامان سمیت   گھر بیٹے کو ہدیہ کر کے گھر اس کے  حوالے کردے ،قبضہ دے دينے کے بعد یہ مکان اس بیٹے کا ہوجاۓ گا اور پھر سائلہ کی حیات اور وفات کے بعداس گھر میں سائلہ کی دیگر اولاد کا کسی قسم کا  حق نہیں ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو ‌وهب ‌رجل ‌شيئا ‌لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية."

(كتاب الهبة،الباب السادس في الهبة للصغير،391/4، ط:ماجدية)

در مختار میں ہے:

"وفي الخانية ‌لا ‌بأس ‌بتفضيل ‌بعض ‌الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار."

(كتاب الهبة،696/5، ط: سعيد)

شرح المجلہ میں ہے:

"لو اجاز الورثة هبة المريض بعد موته صحت."

(كتاب الهبة،الفصل الثاني في هبة المريض،[رقم المادة:879] 383/1، ط: رشيدية)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"واما رکنها فقول الواهب وهبت لانه تمليك... ومنها: أن يكون الموهوب مقبوضا، حتي لايثبت الملك الموهوب له قبل القبض".

(کتاب الهبة،الباب الاول فی تفسیر الھبة ورکنھا:374/4 ط:ماجدیة)

فقط  والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں