بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کو حافظ بنانے کی نذر ماننا


سوال

میں نے منت مانی کہ میرا بیٹا پیدا ہوا تو میں اسے حافظ قرآن بناؤں گا،  اب میرا بیٹا 10 سال کا ہے اور قاری صاحب گھر پر پڑ ھانے آتے ہیں، مگر بیٹا دلچسپی نہیں لیتا تو اگر بیٹے کو میں حفظ نہ کراؤں تو اس بارے شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

نذر  کے منعقد ہونے کی منجملہ شرائط میں سے ہے کہ   نذر عبادت کی ہو، اور وہ عبادت مقصودہ ہو، اور  اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو  یا وہ عبادت تو ہو لیکن عبادت مقصودہ نہ ہو تو اس کی نذر بھی صحیح نہیں، لہذاصورتِ مسئولہ میں آپ نے اپنے بیٹے کو حافظ بنانے کی جو نذر مانی  تھی تو چوں کہ بیٹے کو حافظ بنانا فرض یا واجب نہیں ہے، اس لیے شرعاً یہ نذر لازم نہیں ہوئی، اور آپ اگر اپنے بیٹے کو حافظ نہیں بناسکیں گےتو گناہ گار نہیں ہوں گے۔

  لیکن بہرحال یہ اللہ تعالی سے ایک وعدہ  ہے، اس لیے حتی الامکان اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر کسی وجہ سے  بیٹے کے لیے مکمل حفظ کرنا ممکن نہ ہو تو کم از کم چند سورتیں ہی یاد کرادینا چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 738):

ولو نذر التسبيحات دبر الصلاة لم يلزمه، ولو نذر أن يصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - كل يوم كذا لزمه وقيل لا 

)قوله: ولو نذر التسبيحات) لعل مراده التسبيح والتحميد والتكبير ثلاثًا وثلاثين في كل وأطلق على الجميع تسبيحًا تغليبًا لكونه سابقًا وفيه إشارة إلى أنه ليس من جنسها واجب، ولا فرض وفيه أن تكبير التشريق واجب على المفتى به وكذا تكبيرة الإحرام، وتكبيرات العيدين فينبغي صحة النذر به بناء على أن المراد بالواجب هو المصطلح ط.
قلت: لكن ما ذكره الشارح ليس عبارة القنية وعبارتها كما في البحر، ولو نذر أن يقول دعاء كذا في دبر كل صلاة عشر مرات لم يصح (قوله لم يلزمه) وكذا لو نذر قراءة القرآن وعلله القهستاني في باب الاعتكاف بأنها للصلاة وفي الخانية ولو قال: علي الطواف بالبيت والسعي بين الصفا والمروة أو علي أن أقرأ القرآن إن فعلت كذا لا يلزمه شيء. اهـ.
قلت: وهو مشكل فإن القراءة عبادة مقصودة ومن جنسها واجب، وكذا الطواف فإنه عبادة مقصودة أيضًا ثم رأيت في لباب المناسك قال في باب أنواع الأطوفة: الخامس طواف النذر وهو واجب ولايختص بوقت فهذا صريح في صحة النذر به (قوله: لزمه) لأن من جنسه فرضا وهو الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم  مرةً واحدةً في العمر وتجب كلما ذكر وإنما هي فرض عملي قال ح: ومنه يعلم أنه لايشترط كون الفرض قطعيا ط (قوله: وقيل: لا) لعل وجهه اشتراطه كونه في الفرض قطعيًا ح۔
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں