میرے والد اور والدہ کا انتقال ہو گیا، والدہ نے ایک مکان خریدا پھر اس کو فروخت کر کے ایک ا ورمکان بیٹے کے نام خریدا اور اس کا قبضہ اور تصرف بیٹے کو نہیں دیا اس کے بعداس کو فروخت کر کے جوائنٹ اکاؤنٹ جو بیٹے اور والدہ کے نام تھا، اس میں پیسے ایک کروڑ پانچ لاکھ رکھ دیے اب والدہ کا انتقال ہو گیا بیٹا کہتا ہے کہ یہ سب میرا ہے کیا اس میں بیٹوں کا حق ہے، والدہ کے ورثاء دو بیٹے دو بیٹیاں ہیں والدہ کے والدین پہلے فوت ہو چکےہیں۔والدہ نے بڑے بیٹے کے نام خریدا تھا، اس کو گفٹ نہیں کیاتھا، بیٹا بالغ ہے۔
صورتِ مسئولہ میں والدہ نے جب بیٹے کے نام سے مکان خریدا لیکن اسے ہبہ نہیں کیا تو صرف اس کے نام پر خریدنے سے بیٹا اس مکان کا مالک نہیں بنا، بلکہ یہ مکان والدہ ہی کی ملکیت میں رہا، پھر مکان کو فروخت کر کے جو رقم والدہ نے جوائنٹ اکاؤنٹ میں رکھوائی وہ بھی والدہ ہی کی ملکیت میں تھی، لہذا والدہ کے انتقال کے بعد یہ رقم والدہ کے تمام ورثاء میں تقسیم ہوگی ۔
والدہ کی میراث تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحومہ کے کل منقولہ وغیرِ منقولہ میں سے مرحومہ کے کفن دفن کے اخراجات نکالے جائیں، پھر اگر مرحومہ پر کوئی قرض ہو تو ترکہ سے اسے ادا کیا جائے، پھر اگر مرحومہ نے جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ کیا جائے اس کے بعد جو مال بچ جائے اس کے 6 حصے کر کے ہر بیٹے کو دو دو حصے ہر بیٹی کو ایک ایک حصہ دیا جائے۔
میت---مسئلہ:6
بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 1 | 1 |
یعنی ترکہ کا 33.33 فیصد مرحومہ کے ہر بیٹے کواور 16.67 فیصد مرحومہ کی ہر بیٹی کو ملے گا۔
10500000 روپے میں سے 3500000 روپے اور ہر بیٹی کو1750000 روپے ملیں گے۔
امداد الفتاوی میں ہے:
"کسی کے نام جائداد خریدنے کی حقیقت یہ ہے کہ اس کو ہبہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور ہبہ کے لیے شرط یہ وہ موہوب وقتِ ہبہ ملکِ واہب میں ہو اور ظاہر ہے کہ ملک بعد اشتراء کے ثابت ہوگی، سو اس سے بعد کوئی عقد دال علی التملیک ہونا چاہیےاور بدون اس کے وہ مشتری لہ مالک نہ ہوگا بلکہ بدستور ملک مشتری کی رہے گی ۔"
(کتاب البیوع، ج:3، ص:38-39،ط:مکتبہ دار العوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100322
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن