بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کا والد کے زیرِ کفالت ان کے سرمایہ سے کاروبار کرنا


سوال

ایک آدمی نےاپنے بڑے بیٹے کو کسی کمپنی میں منشی لگوایا، کچھ عرصہ بعد والد اور کمپنی والوں کے مشورے سے اسے   ملک سے باہر   بھیجا گیا،بیٹا باہر ملک میں بھی منشی رہا، البتہ وہاں اس نے  منشی ہونے کے ساتھ ساتھ کاروبار شروع کیا، کچھ عرصے بعد والد صاحب نے اپنے منشی بیٹے کو معاملے کے لیے کچھ رقم دی، تقریباًدس مہینےکے بعد منشی نے وہ رقم والد کو واپس کردی اور منشی کوکاروبارمیں منافع ہوا،دو سال قبل والد صاحب کاانتقال ہوگیا، اب پوچھنا یہ ہے کہ منشی بیٹے کاکمایا ہواسرمایہ  ان کا ذاتی حق ہے یا پھر وہ بھی والد صاحب کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا؟یاد رہے کہ تمام بیٹے والد کے انتقال تک ان کے زیرِ کفالت رہے اور سب کاروبار مشترک تھا، منشی بیٹا بھی ملک سے باہر والد ہی کے خرچےپر گیاتھا۔اب تک والد کا ترکہ تقسیم نہیں ہوا۔

وضاحت:منشی کوباہر ملک میں منشی ہونے کی وجہ سے ملنے والے ماہانہ تنخواہ سے  کاروبارشروع کیا ۔

والد صاحب نے منشی کو مضاربت کے طور پر رقم دی  اور فیصدی اعتبار سے کوئی نفع متعین نہیں کیا، ایک، ڈیڑھ سال  گزرنے کے بعد منشی نے وہ رقم واپس کردی اور کوئی نفع  نہیں دیا۔

جواب

صورتِ مسئولہ  میں جب  منشی  نے اپنی ذاتی  محنت سے ملنے والے تنخواہ  کے ذریعے کاروبار شروع کیا ، والد کا اس میں کوئی سرمایہ نہیں تھا، تو مذکورہ کاروبار سے کمایا ہوا تمام سرمایہ  ان کا ذاتی ہوگا،  والد کا ترکہ شمارنہ  ہوگا۔  

البتہ والد نے بیٹے کو مضاربت کے طور پر جو رقم   دی تھی اگر بیٹا اس سے نفع کماچکا ہے ، تو وہ نفع والد کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں  شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا، البتہ اس کو  چاہیے  وہ نفع والد کے ورثاء کو لوٹادیں ، تاکہ تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم ہو۔ البتہ بیٹے نے  مذکورہ رقم کے کمانے  میں جتنی محنت کی اس کے بدلے اسے  اجرت مثل ( یعنی عام مارکیٹ  میں ایسی محنت پر جتنی مزدوری دی جاتی ہے)ملے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية……وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي……ثم هذا في غير الابن مع أبيه؛ لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له۔"

(كتاب الشركة ، فصل في الشركة الفاسدة:4/ 325،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144306100575

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں