بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کا اپنی سوتیلی ماں کو شہوت کے ساتھ چھونا ، شوہر کا بیوی کو تم میری طرف سے آزاد ہو کہ الفاظ کہنا


سوال

میری سوتن کے 16سال کا لڑکا میرے اوپر  رات کو آکر چت لیٹ گیا میں سوئی ہوئی تھی میری آنکھ کھلی تومیں نے اس کو مار بھگایا اور اپنے شوہر کو بتایا لیکن میرے شوہر نے کہا کہ اس واقعہ کے متعلق کسی سے کچھ مت کہنا ،اور میرے شوہر مجھے ایک طلاق واضح الفاظ میں ایک مرتبہ دے چکے تھے البتہ اس بعد رجوع ہوگیا تھا ، لیکن اس واقعے کے بعد بھی میرے شوہر اکثر اوقات مجھے یہ الفاظ  "تم میری طرف سے آزاد ہو  اورتمہارا اور میرا کوئی واسطہ نہیں ہے" ،" تم میری رکھیل ( نوکرانی ) ہو " کہتے رہتے ہیں ۔

1۔اب سوال یہ ہےکہ میری سوتن کے بچے نے جو حرکت ہی کیا میرا نکاح اپنے شوہر سے برقرار ہے ؟نیز ان الفاظ سے کتنی طلاق واقع ہوئی ہیں ؟

2۔میرے شوہر میرا مہر دینے سے انکار کر رہے ہیں  اور کہہ رہے ہیں کہ  میں نے جو کھلایا پلایا ہےوہ ہی تمہارا مہر ہے تو کیا اس کا انکار کرنا ٹھیک ہے ؟

وضاحت : سائلہ کے بیان کے مطابق سوتن کے لڑکےکے  ہونٹ اس کے رخسار کو لگے ہیں۔

جواب

1۔واضح رہے اگر   کوئی  شخص اپنی سوتیلی ماں   (باپ  کی بیوی )کو  ایسے چھوئے  کہ اس کے اور اس کے جسم کے درمیان کوئی حائل نہ ہو یا حائل تو ہو، لیکن اس سے بدن کی گرمی محسوس ہو اور   اس شخص    کو شہوت بھی محسوس ہو یا جسم کے ایسے حصے کو بلاحائل چھوئے یا بوسہ دے، جہاں چھونے میں شہوت غالب ہو تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے اور  بیوی   اپنے شوہر پر حرام ہوجا تی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرسائلہ  کا بیان درست ہے اور واقعۃً اس کی سوتن کا بیٹا شہوت کے ساتھ اس کے اوپر لیٹ گیا اور سائلہ کے  رخسار پر  بوسہ دیا ہے ، نیز    سائلہ  کا شوہر سائلہ کے اس دعوی  کی تصدیق کرتا ہے تو وہ سائلہ  اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوچکی ہے،دونوں کا نکاح ختم ہوچکا، لیکن  شوہراگر سائلہ کی بات کی تصدیق نہیں کرتا تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی،البتہ اگر  سائلہ کے  شوہرنے  سائلہ کو یہ الفاظ کہے کہ " تم میری طرف سے آزاد ہو" اس سے سائلہ پربلانیت  طلاق بائن واقع ہوچکی ہے ،سائلہ اپنے شوہر سے بائنہ ہوچکی ہے ، نکاح ٹوٹ گیاہے اب دونوں کا میاں بیوی کی طرح رہنا ناجائز اور حرام ہے ، دونوں میں علیحدگی ضروری ہے ۔

البحر الرائق میں ہے :

"وأطلق في اللمس والنظر بشهوة، فأفاد إنه لا فرق بين العمد والخطأ والنسيان والإكراه ... وأطلق في اللمس فشمل كل موضع من بدنها وفي الخانية لو مس شعر امرأة عن شهوة قالوا: لا تثبت حرمة المصاهرة، وذكر في الكيسانيات أنها تثبت . وينبغي ترجيح الثاني؛ لأن الشعر من بدنها من وجه دون وجه كما قدمناه في الغسل فتثبت الحرمة احتياطا كحرمة النظر إليه من الأجنبية ولذا جزم في المحيط بثبوتها وفصل في الخلاصة: فما على الرأس كالبدن بخلاف المسترسل وانصرف اللمس إلى أي موضع من البدن بغير حائل، وأما إذا كان بحائل فإن وصلت حرارة البدن إلى يده تثبت الحرمة وإلا فلا، كذا في أكثر الكتب، فما في الذخيرة من أن الشيخ الإمام ظهير الدين يفتي بالحرمة في ‌القبلة ‌على ‌الفم والذقن والخد والرأس وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت المقنعة رقيقة تصل الحرارة معها كما قدمناه وقيد بكون اللمس عن شهوة؛ لأنه لو كان عن غير شهوة لم يوجب الحرمة والمراهق كالبالغ ووجود الشهوة من أحدهما كاف."

( كتاب النكاح ، فصل في المحرمات في النكاح ، ج:3 ، ص:107 ، ط:دارالكتاب الاسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ‌ويقع ‌في ‌أكبر ‌رأيه ‌صدقها."

( كتاب النكاح ، فصل في المحرمات ، ج:3 ، ص:33 ، ط: ايچ ايم سعيد )

وفیہ ایضا:

"غلب استعماله في الطلاق لم يبق كناية، ولذا لم يتوقف على النية أو دلالة الحال".

(کتاب الطلاق ،باب الكنايات،3/ 299،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"وكونه التحق بالصريح للعرف لاينافي وقوع البائن به، فإن الصريح قد يقع به البائن كتطليقة شديدة ونحوه: كما أن بعض الكنايات قد يقع به الرجعي، مثل اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة.

والحاصل أنه لما تعورف به الطلاق صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن، هذا غاية ما ظهر لي في هذا المقام، وعليه فلا حاجة إلى ما أجاب به في البزازية من أن المتعارف به إيقاع البائن، لما علمت مما يرد عليه، والله سبحانه وتعالى أعلم".

(كتاب الطلاق ، 3 /300، باب الکنایات، ط؛ سعید)

2۔صورت مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے جو نان ونفقہ سائلہ کو دیاہے وہ اس ذمہ کی داری تھی ،لہذا   سائلہ کا شوہر اس کو  مہرکا بدل قرار نہیں دے سکتا چناں چه طے شدہ مہر کی الگ سے ادائیگی اس کے ذمے لازم ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

  "والمهر یتاکد باحد معان ثلاثة:الدخول والخلوة الصحیحةوموت احد الزوجین سواء کان مسمی او مهر المثل حتی لا یسقط منه شیئ بعد ذالک الا بالابراء من  صاحب الحق ۔"

(کتاب النکاح ،الباب السابع فی المهر،الفصل الثانی ج:1 ص:370،ط:رشيديه)    

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101527

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں