بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کا اپنے ماں کو شہوت سے چھونے سے حرمت کب ثابت ہوگی؟َ


سوال

اگر کوئی لڑکا اپنی ماں کے ساتھ بچپن سے سو رہا ہے ،اور اب وہ 19 سال کا ہے، لیکن کبھی ایسا ہوا کے نیند میں وہ  اپنی ماں کو پکڑ کر سویا ہو جیسے وہ بچپن سے سوتا رہا ہے، لیکن اسے شہوت آجاتی ہے، اور کچھ دیر بعد اسے جب احساس ہوتا ہے کہ یہ کیا کر رہا ہوں، تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے، تو کیا حرمت ثابت ہوگی یا نہیں؟ اور کیا تمام شرائط میں سے ایک بھی شرط اگر رہ جاتی ہے تو  کیا حرمت ثابت ہوگی؟ فقہ حنفی کیا کہتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حرمتِ مصاہرت ثابت ہونےکے لیے چند شرائط ہیں جن کا کا پایا جانا ضروری ہے،اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو حرمت ثابت نہیں ہوگی،وہ شرائط  مندرجہ ذیل ہیں:

1: مس بغیر حائل کے ہو یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل کپڑا وغیرہ  اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔

2:  وہ بال جو سر سے نیچے لٹکے ہوئے ہوئے ہیں ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ صرف ان بالوں کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو سر سے ملے ہوئے ہیں ۔

3: چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو،مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے  اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا ان کےلئے  اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔

4: شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، اور پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے، اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

5: شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

6: عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔

7: اگر چھونے والی عورت ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرے  یا چھونے والا مرد ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرےتو شوہر کو  اس خبر کے سچے ہونے کا غالب گمان ہو اور وہ اس کی تصدیق بھی کرے، اس لیے اس دعوی سے شوہر کا حق باطل  ہوتاہے، اس لیے  صرف دعوی کافی نہیں،   بلکہ شوہر کو ظنِ غالب  حاصل ہونا  یا  شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں یہ ایک اصولی جواب ہے،  چوں کہ مسئلہ کافی حساس نوعیت کا ہے،اس لیے صاحبِ واقعہ کو چاہیے کہ کسی معتبر عالم دین یا مفتی صاحب سے بالمشافہ مل کر اپنا مسئلہ معلوم کرے،تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة.ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة. ولو مس شعرها بشهوة إن مس ما اتصل برأسها تثبت وإن مس ما استرسل لا يثبت.والشهوة تعتبر عند المس والنظر حتى لو وجدا بغير شهوة ثم اشتهى بعد الترك لا تتعلق به الحرمة. وحد الشهوة في الرجل أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة، كذا في التبيين. وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي. وبه يفتى، ... هذا الحد إذا كان شابا قادرا على الجماع فإن كان شيخا أو عنينا فحد الشهوة أن يتحرك قلبه بالاشتهاء إن لم يكن متحركا قبل ذلك ويزداد الاشتهاء إن كان متحركا، كذا في المحيط.وحد الشهوة في النساء والمجبوب هو الاشتهاء بالقلب والتلذذ به إن لم يكن وإن كان فازدياده، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. ووجود الشهوة من أحدهما يكفي وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند المس أو النظر لم تثبت به حرمة المصاهرة. ويشترط أن تكون المرأة مشتهاة، كذا في التبيين. والفتوى على أن بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها."

(کتاب النکاح ،الباب الثالث فی بیان المحرمات، ج:1، ص:274، ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه."

(کتاب النکاح،فصل فی المحرمات، ج:3، ص:33، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100634

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں