بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کے نام پلاٹ خریدنے سے ہبہ کا حکم


سوال

سوال یہ ہے کہ میرے والد صاحب نے 1965ء میں نیلامی میں ایک پلاٹ میرے نام سے لیا تھا، جو میں نے والد صاحب کے ہی بار بار اصرار پر ہی 1981ء میں اپنے نام لیز بھی کروایا تھا، اور اُس لیز کے تمام اخراجات بھی میں نے اپنی ذاتی رقم لگا کر کروائی، یہاں تک کے اُس پلاٹ کے تمام بجلی، ٹیلی فون اور تمام سرکاری ٹیکس بھی میرے ہی نام سے آتے تھے حتی کہ جو کاروبار اس پلاٹ پر ہوتا تھا وہ بھی میرے نام سے تھا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد کی وفات 1996ء میں ہوئی، اس وقت میری عمر41 سال تھی، اور انہوں نے کبھی بھی اپنی زندگی میں اس پلاٹ کی واپسی کا تقاضا بھی نہیں کیا، اب والد کی وفات کے بعد میرے بہن بھائی یہ تقاضا کررہے ہیں کہ اس پلاٹ کو بھی والدصاحب کی وراثت میں شامل کرکے تقسم کرو، جب کہ 1965ء سے لے کر آج 2024ء تک میرے ہی نام ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ پلاٹ والد کی وراثت میں آتا ہے یا میں ہی اس کا مالک ہو؟ جواب عنایت فرما دیجیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ پلاٹ سائل کے والد نے پہلے اپنے لیے خریدا تھا اور پھر بعد میں سائل کو کہا کہ اپنے نام کروادو اور سائل نے والد کے کہنے پر اپنے نام کروایا، تو اگر نام کروانے کے ساتھ ساتھ والد نے پلاٹ سے اپنا قبضہ و تصرف ختم کرکے سائل کو مکمل قبضہ و اختیارات بھی دئیے تھے، تو پھر یہ سائل کی ملکیت شمار ہوگا، اور اگر والد نے صرف نام پہ کروانے کا کہا تھا اور باقاعدہ مکمل قبضہ و اختیارات نہیں دئیے تھے، تو پھر وہ ہبہ مکمل نہیں ہوا اور وہ پلاٹ بدستور والد کی ملکیت ہی رہا، اور اگر مذکورہ پلاٹ والد نے شروع ہی سے سائل کے نام پر خریدا تھا اور سائل کے لیے خریدنے سے سائل کو ہی مالک بنانا مقصود تھا اور اس پر شواہد بھی موجود ہوں، تو اس صورت میں مذکورہ پلاٹ سائل کی ہی ملکیت شمار ہوگا، لیکن اگر مذکورہ پلاٹ صرف سائل کے نام پہ خریداتھا اور اس کو مالک بنانا مقصود نہیں تھا (بلکہ صرف کاغذات میں نام کروا یاتھا یا ٹیکس وغیرہ سے بچنے کے لیے یا کسی اور غرض سے سائل کے نام پہ کروایا تھا) تو پھر مذکورہ پلاٹ والد کی ملکیت شمار ہوگا، تاہم ذکر کی گئی صورتوں کے مطابق جس صورت میں پلاٹ والد کی ملکیت میں تھا، تو اس صورت میں والد کے انتقال کے بعد مذکورہ پلاٹ والد کا ترکہ شمار ہوگا اور دیگر ترکہ کے ساتھ  مل کرتمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا، اور جس صورت میں پلاٹ سائل کی ملکیت شمار ہے، تو اس صورت میں پلاٹ ترکہ میں شمار نہیں ہوگا بلکہ وہ سائل کی ہی ملکیت ہوگی اور کسی اور (بہن، بھائیوں) کا اس میں حصے کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وجعلته لك) لأن اللام للتمليك بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة.

(وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: ‌جعلته ‌لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لا يكون هبة، ولو قال: أغرس باسم ابني، فالأمر متردد، وهو إلى الصحة أقرب اهـ.

وفي المتن من الخانية بعد هذا قال: ‌جعلته ‌لابني فلان، يكون هبة؛ لأن الجعل عبارة عن التمليك، وإن قال: أغرس باسم ابني، لا يكون هبة، وإن قال: جعلته باسم ابني، يكون هبة؛ لأن الناس يريدون به التمليك والهبة اهـ... قال الرملي: أقول: ما في الخانية أقرب لعرف الناس تأمل اهـ.... (قوله: ليس بهبة) بقي ما لو قال: ملكتك هذا الثوب مثلا، فإن قامت قرينة على الهبة صحت، وإلا فلا لأن التمليك أعم منها لصدقه على البيع والوصية والإجارة وغيرها."

(‌‌كتاب الهبة، ج: 5، ص: 689،688 ط: سعید)

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

"(سئل) فيما إذا اتخذ زيد لخادمه عمرو كسوة وسلمها له ولبسها على سبيل التمليك ثم خرج الخادم من عنده ويريد زيد الآن أخذ الكسوة منه فهل ليس له ذلك والكسوة المزبورة صارت ملكا للخادم؟

(الجواب) : نعم اتخذ لولده الصغير ثيابا ثم أراد أن يدفع إلى ولد له آخر لم يكن له ذلك؛ لأنه لما اتخذه ثوبا لولده الأول صار ملكا للأول بحكم العرف فلا يملك الدفع إلى غيره إلا إذا بين للأول عند اتخاذه أنها عارية؛ لأن الدفع إلى الأول يحتمل الإعارة وإذا بين ذلك صح بيانه وكذا إذا اتخذ ثيابا لتلميذه فأبق التلميذ بعدما دفع فأراد أن يدفع إلى غيره فهو على هذا إن بين وقت الاتخاذ أنها إعارة يمكنه الدفع إلى غيره خانية من فصل هبة الوالد لولده والهبة للصغير

(أقول) والتقييد بقوله فأبق التلميذ بعدما دفع يفيد الفرق بينه وبين الولد الصغير من حيث إن التلميذ لا يملكها إلا بعد الدفع إليه بخلاف الولد فإنه بمجرد اتخاذ الأب صارت ملكه؛ لأنه هو الذي يقبض له ولذا قيد الولد بالصغير أما الكبير فلا بد من التسليم أيضا كما صرح به في جامع الفتاوى."

(كتاب الهبة، ج: 2، ص: 93، ط: دار المعرفة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط."

(کتاب الھبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج: 4، ص: 377، ط: رشیدیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض."

(كتاب الهبة، فصل في حكم الهبة، ج: 6، ص: 127، ط: سعید)

فتاوی محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"سوال کے ابتداء میں ہے کہ "وہ جائیدا زوجہ کے نام خرید کرائی ہے" آخر میں ہے کہ "زوجہ کے نام منتقل کرائی ہے"۔ اگر یہ مطلب ہے کہ بائع سے براہ راست جائیداد زوجہ کے نام خریدی اور منتقل کرائی ہے تب تو وہ زوجہ کی ملک ہے، ترکہ زوج نہیں، مگر یہ کہ زوجہ اس بات کا اقرار کرلے، یا ورثاء زوج کے پاس اس کا ثبوت ہوکہ یہ جائیداد متوفی نے اصالۃً اور حقیقۃً اپنے لیے خریدی تھی اور کسی عارضی مصلحت کی وجہ سے کاغذ میں زوجہ کا نام تحریر کرادیا تھا تو اس وقت ترکہ میت شمار ہوکر حسبِ تحریر بالا ورثاء پر تقسیم ہوگا۔

اگر یہ مطلب ہے کہ اپنے نام خرید کر پھر زوجہ کے نام منتقل کرادی تھی تو اس صورت میں اگر بحالتِ صحت و تندرستی بطورِ ہبہ منتقل کرکے زوجہ کا قبضہ اس پر کرادیا تھا تو وہ زوجہ کی ملک ہے ترکہ متوفی نہیں، بھائی مطالبہ نہیں کرسکتا۔"

(کتاب الفرائض، ج: 20، ص: 313، ط: دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101579

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں