بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹکیٹ یا بائننس کا حکم


سوال

بیٹکیٹ یا بائننس کھیلنا جائز ہے؟

جواب

بیٹکیٹ یا بائننس  کرپٹو کرنسی ٹریڈنگ کا ایکسچینج ہے جس پر   ٹریڈ کی مختلف صورتیں ہیں:

1۔فیوچر ٹریڈنگ: اس میں عملاً لین دین نہیں ہوتا بلکہ قیمت کے حساب سے نفع نقصان برابر کیا جاتا ہے۔ جس میں نفع ملنے کی امید کے ساتھ ساتھ سرمایہ ڈوبنے کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے،  یہ صورت ربا (سود) اور  قمار  (جوا) ہونے کی وجہ سے حرام ہے اور اس کی آمدنی  بھی حرام ہے۔

2۔آپشن ٹریڈنگ: اس میں کسی شخص کو خریدنے یا بیچنے کا اختیار بیچا جاتا ہے اور اس پر پریمیم لیا جاتا ہے۔  اختیار  حقوق مجردہ کے قبیل میں سے ہے، جسے فروخت کرنا شرعا جائز نہیں، لہذا آپشن ٹریڈنگ کی آمدنی بھی حرام ہے۔

3۔     مارجن ٹریڈنگ: اس میں بائننس سے سود پر قرض لے کر اس سے ٹریڈ کی جاتی ہے۔ سود کا لین دین شرعاً حرام ہے، لہذا یہ صورت اختیار کرنا بھی ناجائز ہے۔

4.     اسپاٹ ٹریڈنگ: اس میں موجودہ قیمت کے مطابق  کرپٹو کوائینز اور ٹوکنز کا لین دین ہوتا ہے، جس کی خرید و فروخت کے لیے USTD درکار ہوتے ہیں، جس کی خریداری مذکورہ بالا  دونوں پلیٹ فارم کے ذریعہ آن لائن کی جاتی ہے، جس میں عاقدین الگ الگ مجلس میں ہوتے ہیں، جبکہ  کرنسی کی خرید و فروخت کے لیے سودا کرنے والے دونوں افراد کا ایک مجلس میں ہونا، اور ہاتھ در ہاتھ ( نقد) سودا کرنا شرط ہے، پس فروخت کنندہ اور خریدار  اگر ایک مجلس میں  نہ ہوں تو ایسا سودا سودی ہونے کی وجہ سے ناجائز و حرام ہوتا ہے، لہذا اسپارٹ ٹریڈنگ  بھی  ناجائز ہوگی۔

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن ‌القمار من القمر الذي يزداد تارةً و ينقص أخرى، وسمي ‌القمار قمارًا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، و لا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة و النقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ٦ / ٤٠٣، ط: دار الفكر )

أحکام القرآن للجصاص  میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه."

( باب تحریم المیسر، سورة البقرۃ، ١ / ٣٩٨، ط: دار الکتب العلمیة بیروت - لبنان)

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"(قوله لحصول الربا) فإن الزيادة حينئذ تكون فضلا مستحقا في عقد المعاوضة بلا مقابل وهو معنى الربا أو شبهه، ولشبهة الربا حكم الربا فتح."

(كتاب البيوع، باب خيار العيب، ٥ / ٢٠، ط: دار الفكر )

إعلاء السنن میں ہے:

"عن علي أمير المؤمنين رضي الله عنه مرفوعا: كل قرض جر منفعة فهو ربا ... وقال الموفق: وكل قرض شرط فيه الزيادة فهو حرام بلا خلاف."

(كتاب الحوالة، باب كل قرض جر منفعة فهو ربا، ١٤ / ٥١٢، ط: إدارة القرآن)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101749

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں