بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین سے ملنے آبائی وطن جانے والا مسافر شمار ہوگا یا نہیں؟


سوال

 میرا گھر بہاولپور میں ہے، جب کہ میرے والدین کا گھر میرے شہر سے 125 کلومیٹر دور ہے، جب میں اپنے والدین کو ملنے ان کے گھر جاؤں گا، تو اُس جگہ نماز پوری ادا کرنی ہے یا قصر نماز ہوگی؟ براۓ مہربانی راہ نمائی فرمائیں ۔

وضاحت: جس شہر میں رہائش پذیر ہوں، اس شہر کو میں نے اپنا وطنِ اصلی بنایا ہوا ہے، اور والدین جہاں آباد ہیں، اس جگہ کی وطنیت کو میں ختم کرچکا ہوں۔

جواب

واضح ہو کہ   اگر والدین  اور بیٹے کے وطنِ اصلی جدا ہوں، اور بیٹا بالغ ہو  ،اور دونوں کے درمیان سفرِ شرعی کی مسافت ہو، اور دونوں میں سے کسی ایک نے دوسرے کے گھر 15 دن کی اقامت اختیار کرنے کے بعد وہاں رہائش کے لیے اپنا سامان نہ چھوڑا ہو، تو ایسی صورت میں دونوں میں سے کوئی ایک، دوسرے کے گھر اگر  15 دن سے کم رہنے کی نیت رکھتا ہو، تو وہ وہاں جا کر قصر نماز پڑھے گا، مکمل نماز نہیں پڑھے گا۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر سائل  اپنے والد ین سے  ملنے ایک سو پچیس کلو میٹر دور جگہ پر آئے، جبکہ والدین کی رہائش گاہ سے اپنی وطنیت ختم کرکے الگ جگہ کو  اپنا وطن اصلی بنا چکا ہے  تواس صورت میں   سائل اپنے والدین کے پاس  پندرہ دن سے کم رہائش اختیار کرنے کے ایام میں قصر نماز ہی پڑھے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: أو توطنه) أي عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل، فلو كان له أبوان ببلد غير مولده وهو بالغ ولم يتأهل به فليس ذلك وطنا له إلا إذا عزم على القرار فيه وترك الوطن الذي كان له قبله، شرح المنية."

(باب صلاة المسافر، مطلب في الوطن الأصلي ووطن الإقامة، ج: 2، ص: 131، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"و الوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها."

(باب صلاة المسافر، اقتداء مسافر بمقيم في الصلاة، ج: 2، ص: 147، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے :

’’سوال : ایک شخص اپنے والد کی جائے سکونت سے دور دراز فاصلہ پر رہتا ہے، اگر بیٹا باپ کی جائے سکونت میں یا باپ بیٹے کی جائے سکونت میں جاوے تو قصر پڑھیں گے یا نہیں؟

جواب : جب کہ وطن اصلی ہر ایک کا علیحدہ علیحدہ ہوگیا ہے تو ہر ایک ان میں سے دوسرے کے وطن میں جانے سے مقیم نہ ہوگا، بلکہ قصر نماز پڑھے گا۔‘‘

(ج:4،   ص:327)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں