بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیسٹ بائی ایپ سے کمائی کرنے کاحکم


سوال

 ایک ایپ نہیں ،بلکہ بےشمار ایسے ایپس ہیں جن سے لوگ پیسے کماتے ہیں، ان میں سے ایک کا نام بیسٹ بائی ہے، اس کی  اپنی  بڑی کمپنی بھی پلے اسٹور پر ہے، جس میں لوگ لاکھوں کی  چیزیں خریدو  فروخت کرتے ہیں ، اس میں لوگ کچھ پیسے ریچارج کرتے ہیں بہت کم پیسے، پھر ان کو ہر دن کچھ کچھ ملتا ہے ، اور وہ ایسے  ملتا ہے کہ یہ لوگ پچاس آرڈرز کرتے ہیں دن میں ، مطلب پچاس چیزیں خرید کر فروخت کرلیتے ہیں، اس میں کبھی ان  کو دو سو، کبھی تین سو، کبھی سو اور کبھی اس سے بھی کم ملتے  ہیں  اور جو رقم انہوں نے جمع کروائی ہے اس کا بھی پکا پتہ نہیں ہے کہ وہ ان کو واپس مل جائے گی یا نہیں ، اس میں ہمارے بہت سارے  دوست  لگے ہوئے  ہیں  اور کچھ کہتے ہیں کہ یہ سود ہے ۔ برائے مہربانی ہمیں جواب عنایت فرما کر مشکور فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ  ایپ سے کمائی کرنا مندرجہ ذیل وجوہات سے ناجائز ہے :

1:   اس میں ایسے لوگ اشتہارات کو دیکھتے ہیں جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

2: جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں۔لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔

3:ان اشتہارات میں  خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے۔

4: نیز اشتہار  پر کلک ایسی چیز نہیں ہے جو منفعت مقصودہ ہے، اس لیے یہ اجارہ صحیح نہیں ہے۔

5: اس اجارہ کے معاملہ میں عمل  (کلک کی مجموعی تعداد) اور وقت (کلک کرنے کی مدت ) دونوں پر اجارہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد ہے۔

6: اس کمپنی میں رجسٹرڈ  ہونے کے لیے جو  کچھ رقم ریچارج کی جاتی ہے ،جس  کے عوض ایڈ پاور حاصل کیا جاتا ہے، جو واپس نہیں ملتی، یہ ایک قسم کی رشوت ہے۔

7:ایپ سے کمائی میں جو آرڈرز ملتے ہیں ، عام طور پرجب   اس اشتہار پر کلک کیا جائے تو وہ آرڈر  پورا ہوجاتا ہے ،اور اشتہار پر کلک کرکے اجرت لینا جائز نہیں،اوراگر  مذکورہ ایپ میں اس آرڈر  کی باقاعدہ خرید وفروخت ہوتی ہے تو چوں کہ اس صورت میں بیع قبل القبض پائی جاتی ہے اور بیع قبل القبض بیع فاسد ہے لہذا اس کی کمائی جائز نہیں ہوگی۔ 

8: نیز اس معاملے میں جس طریق پر اس سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی ہے جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے جب کہ  اس نے  دیگر افراد کے نئےاکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا ، بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔ شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے ۔حدیث شریف میں ہے:

شعب الایمان میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الكسب أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور."

(كتاب الإيمان،التوكل بالله عزوجل و التسليم لأمره تعالي في كل شيئ،434/2،ط:مكتبة الرشد،رياض)

ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔

علامہ طیبی رحمہ اللہ نے  شرح مشکوۃ میں مبرور کایہ  معنی بیان کیا ہے:

" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به."

(كتاب البيوع،باب الكسب و طلب الحلال،2112/7،ط:مكتبة نزار مصطفى الباز مكة المكرمة )

 لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو اور اس کمائی میں تمام شرائط پائی جائیں ،کوئی غیر شرعی شرط نہ پائی جائے تو ایسی کمائی اختیار کی جائے،ایسی کمائی  بابرکت ہوتی ہے۔    

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال ، قال في التتارخانية : وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل ، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم .وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار ، فقال : أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز ، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(كتاب الإجارة،مطلب في أجرة الدلال،63/6،ط: سعيد)

موسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لا يستحق به أجرة . ولا يجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً ؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولا يجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها ، ولا على حمل الخنزير." 

(كتاب الإجارة ،الإجارة علي المعاصي و الطاعات،290/1،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية۔الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100663

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں