بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیرون ملک مقیم شخص نے صدقۂ فطر پاکستان کی قیمت کے اعتبار سے ادا کردیا


سوال

بیرونِ  ملک ملازمت  کے سلسلے  میں مقیم فرد نے بے خبری اور لاعلمی کی وجہ سے فطرانہ پیدائش کے  ملک  "پاکستان"  کی قیمتوں کے حساب سے دیا ہو، اور  بعد میں اسے مسئلہ کا علم ہوا ہو کہ فطرانہ اسی ملک کے حساب سے دیا جائے گا، جس میں قیام ہو اور ملازمت ہو، تو اس  کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ   مسئولہ میں مذکورہ شخص  جس ملک میں مقیم ہے، اس پر  اسی  ملک  کی قیمتوں کے حساب سے صدقہ فطر ادا کرنا لازم ہے، لہذٰا پاکستان کی قیمت کے اعتبار سے جوصدقہ فطر ادا کیا، اگر وہ اس شخص کی رہائش والے ملک  میں (صدقہ فطر کی سب سے ادنیٰ مقدار) پونے دو کلو گندم کی قیمت سے کم ہے، تو جتنی کمی  رہ گئی ہے، اسے پورا  کر کے کم از کم پونے دو کلو گندم کی  قیمت کے برابر صدقۂ فطر ادا کردے،اس لیے کہ صدقہ فطر جب مکمل ادا نہیں ہوا تو ذمہ میں ادا کرنا باقی ہے۔ اور اگر (پاکستان کی قیمت کے اعتبار سے )  ادا کردہ  صدقہ فطر اس کی رہائش والے ملک کی پونے دو کلو گندم کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد تھا تو صدقۂ فطر اداہو گیا ہے، مزید اد اکرنا ضروری نہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 355):

"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.
(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه".

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات".

(الفتاوى الهندية (1/ 190)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"و إنما تجب صدقة الفطر من أربعة أشیاء من الحنطة و الشعیر والتمر و الزبیب."

(باب صدقة الفطر، ج:1، ص:191، ط:مکتبة حقانیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و هي نصف صاع من برّ أو صاع من شعیر أو تمر."

(باب صدقة الفطر، ج:1، ص:191، ط:مکتبة حقانیة)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200937

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں