بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیرون ملک میں علاج مہنگا ہونے کی صورت میں میڈیکل انشورنس کروانے کا حکم


سوال

بیرون ممالک میں سے ایسا ملک جہاں دوائی اور ہسپتال کا خرچہ زیادہ  اور غیر معقول ہو،مثلاًامریکا تووہاں  میڈیکل انشورنس لینے کا شرعاً کیا حکم ہوگا؟

کیا حرج عظیم کی بناء پر بلا کراہت اس کی گنجائش ہوگی۔

جواب

عام انشورنس کی طرح میڈیکل انشورنس میں بھی سود اور قمار (جوا) دونوں پائے جاتے ہیں؛ کیوں کہ میڈیکل انشورنس میں ایک متعینہ مدت کے لیے انشورنس کے لیے پریمیم کے نام سے جو رقم جمع کی جاتی ہے، وہ اس رقم سے کم ہوتی ہے جس کا بیمہ کمپنی حسب شرائط بعض بیماریوں کے علاج کے موقعہ پر کیش کی شکل میں خود میڈیکل انشورنس کرانے والے کو ادا کرنے یا اس کی جانب سے بحیثیت وکیل ہسپتال کو ادا کرنے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے؛ اس لیے یہ سودی معاملہ پر مشتمل ہے۔ اور جن خاص بیماریوں پر میڈیکل انشورنس کیا جاتا ہے، ضروری نہیں کہ میڈیکل انشورنس کرانے والے کو متعینہ مدت میں وہ بیماری پیش آئے؛ کیوں کہ عام طور پر موجودہ بیماریوں پر میڈیکل انشورنس نہیں کیا جاتا؛ بلکہ صرف موہومہ بیماریوں پر کیا جاتا ہے، اور اگر کوئی ادارہ  کسی موجودہ بیماری پر میڈیکل انشورنس کرتی ہے تو وہ بیماری کی نوعیت کے مد نظر میڈیکل انشورنس کرانے والے کے لیے پریمیم کی مقدار بڑھادیتی ہے، پس اگر حسب شرائط مطلوبہ بیماری پائی گئی اور اس کے علاج میں جمع کردہ رقم سے زائد خرچہ ہوا تو بیمہ کمپنی ایک متعینہ رقم تک پیسوں کی ادائیگی کرے گی اور اگر حسب شرائط کوئی ایسی بیماری لاحق نہیں ہوئی جس پر بیمہ کیا گیا تو جمع کردہ ساری رقم سوخت ہوجائے گی، پس یہ معاملہ نفع اور نقصان کے درمیان دائر ہوا اور ہر ایسا معاملہ جو نفع ونقصان کے درمیان دائر ہو اور آدمی اس میں داخل ہونے کے بعد یا نفع کے ساتھ واپس آئے یا نقصان کے ساتھ، وہ شریعت کی اصطلاح میں قمار (جوا) ہوتا ہے؛ اس لیے میڈیکل انشورنس میں سود اور قمار دونوں پائے جاتے ہیں اور مذہب اسلام میں سود اور قمار دونوں قطعی طور پر حرام وناجائز ہیں؛ اس لیے کسی بھی ملک میں  بھی کسی مسلمان کے لیے (اختیای طور پر) میڈیکل انشورنس کرانا جائز نہیں۔

قرآن کریم میں ہے :

"﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾." [المائدة: 90]

صحیح مسلم میں ہے :

"عن جابر، قال:لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء".

(باب لعن آکل الرباومؤکلہ،ج:3،ص:1219،داراحیاء التراث العربی)

فتاوی شامی میں ہے :

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة والنقصان لا تمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلا تكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي".

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج:6،ص:403،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومنعقدة، وهو أن يحلف على أمر في المستقبل أن يفعله، أو لا يفعله، وحكمها لزوم الكفارة عند الحنث كذا في الكافي".

(کتاب الایمان،الباب الثانی فیما یکون یمینا وما لا یکون یمینا،ج:2،ص:52،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں