بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیرون ممالک سے داڑھی منڈے قراء کو مدعو کرنے اور ان کے لیے منعقد کیے گیے محافل کا شرعی حکم


سوال

کیاکسی دینی ادارہ کا بیرون ممالک سے ایسے قراء حضرات کو مدعو فرمانا جو داڑھی کو منڈاتے ہیں،  اور ان کا لباس خلاف سنت ہوتا ہے، کیا یہ شرعا درست ہے؟ فنِ تجوید میں مہارت رکھنے کی وجہ سے ان کو مدعو فرمانے میں شرعا کوئی گنجائش ہے؟ ایسے قراء سے نماز کی امامت کروانا شرعاً صحیح ہے؟  مسجد کے منتظمین کے لیے ایسے قراء کی مجلس و محفل منعقد کروانا کیسا ہے؟ واضح رہے کے ان کے محافل جو مساجد اور مدارس میں منعقد ہوتی ہیں، ان میں بھر پور تصویر کشی کا انتظام ہوتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کم رکھنا گناہِ کبیرہ اور حرام ہے،جو شخص داڑھی ایک مشت سے کم کرے یا مونڈے ایسے شخص کو  امام بنانا مکروہِ  تحریمی ہے۔ایسا  شخص امامت کا اہل نہیں ہے۔

اسی طرح جان دار کی تصاویر اور ویڈیو بنانا، یا دکھانا، یا ایسے پروگرامات کروانا جس میں جان دار کی تصاویر  ہوں ناجائز ہے،  اور اس گناہ سے  ہر خاص و عام کو اجتناب کرنا چاہیے۔

بلاشک و شبہ قرآن کریم کا سماع بھی ایک عبادت ہے، قرآنِ کریم کی تلاوت کے وقت غور سے سننے کا حکم خود قرآنِ کریم میں موجود ہے، تاہم قرآنِ کریم کی تلاوت کےلیےکسی بھی غیر شرعی امر کے ارتکاب کرنے کی شریعت بھی اجازت نہیں دیتی؛ لہذا کسی بھی ادارے والے کا بیرون ملک سے ایسے قراء کو مدعو کرنا جوایک مشت سے کم داڑھی رکھتے ہوں، ایسے قراء کو مدعو کرنے کے بعد پھر اپنے اداروں میں یا کسی دوسری جگہ پر ان کے لیے باقاعدہ محافل و مجالس منعقد کرنا شرعاً درست نہیں ہے؛ کیوں کہ ان محافل میں عام طور پر بہت سارے خلافِ شرع امور کا ارتکاب ہوتا ہے، مثلاً: بلاوجہ پیسے کا ضیاع ، تصویر کشی، اور نفسِ قرآن کریم کی تلاوت پر اجرت دینا، ان تمام امور کی وجہ سے مذکورہ محافل منعقد کروانا یا اس میں شامل ہونا دونوں شرعاً جائز نہیں ہیں۔

اسی طرح داڑھی والے امام کے ہوتے ہوئے بغیر داڑھی والے کے پیچھے نماز پڑھنا یا ان داڑھی منڈے قراء سے امامت کروانا مکروہِ تحریمی ہے، تاہم اگر کسی نے ان کے پیچھے نماز پڑھی، تو اسے مسجد اور جماعت دونوں کی فضیلت کا ثواب مل جائے گا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے: 

"عن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ’’أشد الناس عذاباً عند الله المصورون‘‘."

(باب التصاویر، الفصل الأول، رقم الحدیث: 4497، ج: 2، ص: 1274، ط: : المكتب الإسلامي)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ  کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستوجب، مصور (تصویر بنانے والا)ہے“۔

(مظاہر حق جدید، ج: 4، س: 230، ط: دارالاشاعت)

عمدة القاری میں ہے:

"وفي التوضيح قال أصحابنا وغيرهم تصوير صورة الحيوان حرام أشد التحريم وهو من الكبائر وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فحرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله وسواء كان في ثوب أو بساط أو دينار أو درهم أو فلس أو إناء أو حائط....وبمعناه قال جماعة العلماء مالك والثوري وأبو حنيفة وغيرهم."

(کتاب اللباس، باب عذاب المصورين يوم القيامه، ج: 22، ص: 70، ط:دار احیاء التراث)

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

 (كتاب الصلاة، مطلب مكروهات الصلاة، ج: 1، ص: 647، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

"و أما الأخذ منها وهي دون ذلك كما فعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد، و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم."

(کتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج: 2، ص: 418، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

"صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة".

و في الرد: (قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع."

(کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ج: 1، ص: 562، ط: سعيد)

المحیط البرھانی میں ہے: 

"سئل أبو بكر عن سراج ‌المسجد هل يجوز أن يتركه في ‌المسجد؟ فاعلم بأن هنا ثلاث مسائل:

أحدها: إذا تركوها من وقت المغرب إلى وقت العشاء والحكم فيها أنه لابأس بها.

الثانية: إذا تركوها ‌كل ‌الليل وإنه لا يجوز إلا في موضع جرت العادة بذلك ‌المسجد كبيت المقدس والحرم ومسجد رسول الله عليه السلام.

المسألة الثالثة: إذا تركوها بعض الليلة وإنه جائز إلى ثلث الليل؛ لأن لهم تأخير العشاء إلى ثلث الليل بل يستحب لهم ذلك، وإنما يسرج في المساجد لأداء الصلاة، ويجوز ترك السراج في ‌المسجد إلى وقت أداء الصلاة إذا كان في الدهن متسع يقبل له الجواز أن يدرس في ‌المسجد لضوء سراج ‌المسجد فقال: إن وضعوا السراج لأجل الصلاة يجوز، وإن وضعوا لا لأجل الصلاة بأن فرغوا من الصلاة وذهبوا وتركوا السراج في ‌المسجد، فإن تركوا إلى ثلث الليل جاز التدريس بضوئه فلا بأس يبطل هذا الحق بالتعجيل، وإن أخذوا أكثر من ثلث الليل لا يجوز التدريس بضوئه إذ ليس لهم تأخير الصلاة إلى هذا الوقت، فلو جاز التدريس بضوئه جاز مقصودا وإنه لا يجوز."

(کتاب الوقف، الفصل الحادي والعشرون: في المساجد وهو أنواع، ج: 6، ص: 216، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو وقف على دهن السراج للمسجد لا يجوز وضعه جميع الليل بل بقدر حاجة المصلين ويجوز إلى ثلث الليل أو نصفه إذا احتيج إليه للصلاة فيه، كذا في السراج الوهاج ولا يجوز أن يترك فيه ‌كل ‌الليل إلا في موضع جرت العادة فيه بذلك كمسجد بيت المقدس ومسجد النبي - صلى الله عليه وسلم - والمسجد الحرام، أو شرط الواقف تركه فيه ‌كل ‌الليل كما جرت العادة به في زماننا، كذا في البحر الرائق."

(کتاب الوقف، الباب الحادی عشر، الفصل الأول فيما يصير به مسجدا وفي أحكامه وأحكام ما فيه، ج: 2، ص:459، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں