بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیری کے درخت سے متعلق عوام الناس میں معروف و مشہور باتوں کی حقیقت


سوال

 ہمارے یہاں لوگوں میں یہ بات مشہور و معروف ہے کہ بیری کا درخت وہ جنت کا درخت ہے، لہذا وہ جس گھر کے آنگن میں یا کھیت میں ہو تو وہاں برکتیں نازل ہوتی ہیں، اور اگر کوئی اس کو کاٹتا ہے تو وہاں غریبی آتی ہے، تو کیا یہ بات درست ہے؟  اس کی کیا حقیقت ہے،وضاحت فرمادیں۔

جواب

واضح رہے بیری کے درخت کا تذکرہ قرآن مجید اور احادیث میں آیا ہے، چنانچہ سورۃ النجم میں ہے:

"وَلَقَدْ رَآه نَزْلَة أُخْرٰى عِنْدَ سِدْرَة الْمُنْتَهی عِنْدَها جَنَّة الْمَأْوىٰ ."(آیت 14.15 )

ترجمہ: " اور انہوں نے (یعنی پیغمبر نے)اس فرشتے کو ایک اور دفعہ (صورتِ اصلیہ میں ) دیکھا ہےسدرۃ المنتہیٰ کے پاس اس کے قریب جنت الماویٰ ہے۔"(بیان القرآن)

 مذکورہ بالا آیت کے تفسیر کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ فرماتے ہیں:

"سِدرہ لغت میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں، اور مُنتہیٰ کے معنی انتہاء کی جگہ ، ساتویں آسمان پر عرش رحمٰن کے نیچے بیری کا درخت ہے، مسلم کی روایت میں اس کو چھٹے آسمان پر بتلایا ہے، اور دونوں رایتوں کی تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر اور شاخیں ساتوں آسمان پر پھیلی ہوئی ہیں(قرطبی) اور عام فرشتوں کی رسائی کی یہ آخری جگہ ہے، اسی لیے اس کو منتہیٰ کہتے ہیں، بعض روایات میں ہے احکامِ الٰہیہ اول عرشِ رحمٰن سے سدرۃ المنتہیٰ پر نازل ہوتے ہیں، یہاں سے متعلقۃ فرشتوں کے سپرد ہوتے ہیں،اور زمین سے آسمان جانے والے اعمالنامے وغیرہ بھی فرشتے یہیں تک پہونچاتے ہیں،وہاں سے حق تعالیٰ کے سامنے پیشی کی اور کوئی صورت ہوتی ہے، مسند احمد میں  یہ مضمون حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔(ابن کثیر)

(معارف القرآن، جلد ہشتم،ص:200،مکتبۃ معارف القرآن کراچی)

اسی طرح سورۃ الواقعۃ میں ہے:

"وَأَصْحَابُ الْيَمِينِ مَا أَصْحَابُ الْيَمِينِ (27) فِي سِدْرٍ مَّخْضُودٍ (28) ."

ترجمہ:"اور جو داہنے والے ہیں وہ داہنے کیسے اچھے ہیں وہ ان باغوں میں ہوں گے جہاں بے خار بیریاں ہوں گی۔"(بیان القرآن)

حضرت مولانا مفتی شفیع رحمہ اللہ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:

"جنت کی نعمتیں بیشمار اور بے مثال و بے قیاس ہیں، ان میں جو نعمتیں قرآن کریم ذکر کرتا ہے وہ مخاطبین کے اندازِ فکر اور ان  کی محبوب و پسندیدہ چیزوں کا ذکرکرتا ہے عرب کے لوگ جن تفریحات اور جن پھلوں کے خوگر تھے ، یہاں ان میں سے چند کا ذکر کیا گیا ہے،" فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ"سدر بیری کے درخت کہتے ہیں، مخضود وہ بیری جس کے کانٹے قطع کردیے گئے ہوں اور پھل کے بوجھ سے شاخ جھکی ہوئی ہو،اور یہ جنت کے بیر دنیا کے بیروں کی طرح نہیں ہوں ، بلکہ یہ بیر مٹکوں کے برابر بڑے اور ذائقہ میں بھی دنیا کے بیر سے اس کی کوئی نسبت نہیں (کذا فی الحدیث)۔"

(معارف القرآن ، جلد ہشتم، ص:275، ط:مکتبۃ معارف القرآن کراچی)

لہذا مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے جنت میں بیری کا درخت موجود ہے،لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ دنیا میں موجود بیری کا درخت وہ جنت سے لایا گیا ہے،یا دنیامیں بیری کا جو درخت موجود ہے بعینہ وہی درخت  جنت میں موجود ہے،ایسا کچھ نہیں ہے،اور جہاں تک یہ بات ہے کہ "جس گھر یا کھیت میں بیری کا درخت ہووہاں برکتیں ہوتی ہیں"،ایسی کوئی بات شرعاًثابت نہیں ہے، البتہ فوائد و منافع جو اس درخت میں پائے جاتے ہیں اس سے انکار نہیں ہے،اور یہ بات کہ "جو شخص بیری کے درخت کو کاٹتا ہےوہاں غریبی آتی ہے"،اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے، البتہ بعض روایات میں بیری کا درخت کاٹنے سے متعلق وعید آئی ہے،جیسا کہ سنن ابی داؤود میں ہے:"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من ‌قطع ‌سدرة صوب الله رأسه في النار."، ترجمہ :"رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص بیری کا درخت کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے الٹے سر دوزخ میں ڈالے گا ۔"(ابواب النوم ، باب قطع السدر، ج:4، ص:361،ط:المکتبۃ العصریۃ)

لیکن مسلمانوں کے لیے میت کو بیری کے پتوں سے غسل دینے کا حکم دیا گیا ہے،اور  بیری کےپتوں کے کٹائی میں ٹہنیوں کی کٹائی یقینی ہے، لہذا بیری کا درخت کاٹنے کی مذکورہ ممانعت مطلق نہیں ہے،اسی بارے میں  مفسر عظیم علامہ آلوسیؒ  نے "تفسیر روح المعانی" میں،امام جلال الدین سیوطی ؒ نے "الحاوی للفتاوی " میں اور علامہ خلیل احمد سہارنپوریؒ نے "بذل المجہود" میں  یہ   وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جوبے فائدہ اور لہولعب کے طور پر بیری کا درخت کاٹے،یا پھر وہ شخص جو حدود حرم میں بیری کا درخت کاٹے گا اس کے لیے یہ وعید ہے، بعضوں نے کہا ہے کہ یہاں مدینہ کی بیری کا درخت مراد ہے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جنگل میں وہ بیری کا درخت مراد ہے جس کے سائے میں مسافر اور جانور راحت پاتے ہیں، اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس وعید کا تعلق اس شخص سے ہے جو کسی دوسرے شخص کا بیری کا درخت ازراہِ ظلم وزیادتی کاٹ ڈالے۔لہذا اپنی ملکیت میں جو بیری کا درخت ہو اسے اپنی ضرورت کے لیے کاٹنا جائز ہے،تابعی کبیر حضرت عروہ بن زبیرؒ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بیری کا درخت کاٹ کر اس کی لکڑی سے دروازے بناتے تھے۔

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"أن السدر له شأن عند العرب ولذا نص الله تعالى على وجوده في الجنة والبستاني منه لا يخفى نفعه والبري يستظل به أبناء السبيل ويأنسون به ولهم فيه منافع أخرى."

(سورة السباء،ج:11، ص:302، ط:دارالكتب العلمية)

وفيه ايضا:

" والسدر شجر النبق، والمخضود الذي خضد أي قطع شوكه،أخرج الحاكم وصححه والبيهقي عن أبي أمامه قال: «كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولون: إن الله تعالى ينفعنا بالأعراب ومسائلهم أقبل أعرابي يوما فقال: يا رسول الله لقد ذكر الله تعالى في القرآن شجر مؤذية وما كنت أرى أن في الجنة شجرة تؤذي صاحبها قال: وما هي؟ قال: السدر فإن له شوكا فقال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم:أليس الله يقول: ‌في ‌سدر ‌مخضود خضد الله شوكه فجعل مكان كل شوكة ثمرة وأن الثمرة من ثمره تفتق عن اثنين وسبعين لونا من الطعام ما فيها لون يشبه الآخر» ."

(سورة الواقعة، ج:14، ص:139، ط:دارالكتب العلمية)

وفيه ايضا:

"والكل فيما أرى محمول على ما إذا كان القطع عبثا ولو كان السدر في ملكه. وقيل في ذلك مخصوص بسدر المدينة، وإنما نهى عن قطعه ليكون إنسا وظلا لمن يهاجر إليها، وقيل بسدر الفلاة ليستظل به أبناء السبيل والحيوان، وقيل بسدر مكة لأنها حرم، وقيل بما إذا كان في ملك الغير وكان القطع بغير حق، والكل كما ترى."

(سورة السباء، ج:11، ص:302، ط:دارالكتب العلمية)

بذل المجہود میں ہے:

"(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع سدرةً صوب الله رأسه في النار") وفي نسخة: سئل أبو داود عن معنى هذا الحديث، قال: معناه: من قطع سدرة في فلاة يستظل بها ابن السبيل والبهائم عبثًا وظلمًا بغير حق يكون فيها، صوّب الله رأسه في النار، أي: نكّسه.
وقال البيهقي في "سننه": قال أبو ثور: سألت أبا عبد الله الشافعي عن قطع السدرة، قال: لا بأس به، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم  أنه قال: اغسلوه بماء وسدر، وقيل: أراد به سدرة مكة لأنها حرم، وقيل: سدرة المدينة،نهى عن قطعها فيكون أنسًا وظلالًا لمن يهاجر إليها، قال: وقرأت في كتاب أبي سليمان الخطابي أن المزني سئل عن هذا فقال: وجهه أن يكون صلى الله عليه وسلم سئل عمن هجم على قطع سدر لقوم أو ليتيم أو لمن حرم الله أن يقطع عليه [فتحامل عليه] بقطعه فاستحق ما قاله، فتكون المسألة سبقت السامع، فسمع الجواب ولم يسمع السؤال."

(اول كتاب الادب، باب في قطع السدر،ج:13، آ:627، ط:مركز الشيخ ابي الحسن علي الندوي للبحوث والدراسات الاسلامية)

الحاوی للفتاوی میں ہے:

"قال البيهقي: وقد قرأت في كتاب أبي الحسن العاصمي روايته عن أبي عبد الله محمد بن يوسف، عن محمد بن يعقوب بن الفرج، عن أبي ثور أنه قال: سألت أبا عبد الله  الشافعي عن قطع السدر، فقال: لا بأس به، قد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " «اغسله بماء وسدر» " فيكون محمولا على ما حمله عليه أبو داود، وروينا عن عروة بن الزبير أنه كان يقطعه من أرضه، وهو أحد رواة النهي، فيشبه أن يكون النهي خاصا، كما قال أبو داود وقرأت في كتاب أبي سليمان الخطابي أن إسماعيل بن يحيى المزني سئل عن هذا، فقال: وجهه أن يكون صلى الله عليه وسلم سئل عمن هجم على قطع السدر لقوم أو ليتيم أو لمن حرم الله أن يقطع عليه، فتحامل عليه بقطعه، فاستحق ما قاله، فتكون المسألة سبقت السامع فسمع الجواب ولم يسمع المسألة، وجعل نظيره حديث أسامة بن زيد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " «إنما الربا في النسيئة» "، فسمع الجواب، ولم يسمع المسألة، وقد قال: " «لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل يدا بيد» ".واحتج المزني بما احتج به الشافعي من إجازة النبي صلى الله عليه وسلم أن يغسل الميت بالسدر، ولو كان حراما لم يجز الانتفاع به. قال: والورق من السدر كالغصن، وقد سوى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما حرم قطعه من شجر الحرم بين ورقه وغيره، فلما لم يمنع من ورق السدر دل على جواز قطع السدر. انتهى.

قلت: والأولى عندي في تأويل الحديث أنه محمول على سدر الحرم، كما وقع في رواية الطبراني. وقال ابن الأثير في النهاية: قيل: أراد به سدر مكة ; لأنها حرم. وقيل: سدر المدينة نهى عن قطعه ; ليكون أنسا وظلا لمن يهاجر إليها، وقيل: أراد السدر الذي يكون في الفلاة، يستظل به أبناء السبيل والحيوان. أو في ملك إنسان فيتحامل عليه ظالم فيقطعه بغير حق، قال: ومع هذا فالحديث مضطرب الرواية، فإن أكثر ما يروى عن عروة بن الزبير - وكان هو يقطع السدر، ويتخذ منه أبوابا - وأهل العلم مجمعون على إباحة قطعه. انتهى."

(كتاب الادب والرقائق ،رفع الخدر عن قطع السدر، ج:2، ص:68، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406102141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں