بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بےپردگی کی وجہ سے والدین کے گھر عدت گزارنا


سوال

میرےبہنوئی کاانتقال 14رمضان المبارک کوہوا،میری ہمشیرہ اب اپنےشوہر(مرحوم)کےگھر میں عدت کےایام گذاررہی ہیں،لیکن وہاں پرانہیں مندرجہ ذیل مسائل درپیش ہیں :جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سےپردےکےمسائل ہیں،کمرےسےباہرکومن کی طرف واش روم ہے،جس کےلیےکمرے سےباہر جاناپڑتاہے،اور بےپردگی ہوتی ہے،اسی طرح کچن میں آناجاناہوتاہے،وہاں بھی پردے کامسئلہ سامنے آتاہے،اب وہ چاہتی ہیں کہ باپردہ ماحول میں شرعی طریقہ کارکےمطابق والدین کےگھرمیں عدت کےبقیہ ایام پورے کریں،براہ کرم شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرماکرممنون فرمائیں کہ کیا بقیہ ایام مذکورہ بالامسائل کی وجہ سے والدین کےگھرمیں گذار سکتی ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بہن پرلازم ہےکہ شوہرکے گھرمیں رہ کرہی اپنی عدت پوری کرے،اور اپنی طرف سےپردےکامکمل اہتمام کرے،گھر میں  آمد ورفت  سے پہلے ہی مردوں کو مطلع کردیا جائے تاکہ وہ بھی پردے کا التزام کرلیں،سائل کےبیان کردہ اعذارایسےنہیں ہیں جس کی وجہ سےشوہرکےگھرکوچھوڑناجائزہو،اس لئےپردہ کااہتمام شوہرکےگھرمیں رہتےہوئےبھی ہوسکتاہے،اس کےباوجودبھی اگرکبھی کسی نامحرم سےآمناسامناہوجائےتواس کاگناہ مذکورہ عورت پرنہیں ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: ولا بد من سترة بينهما في البائن) وفي الموت تستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها هندية."

(‌‌كتاب الطلاق، ‌‌باب العدة، ‌‌فصل في الحداد، ج:3، ص:537، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وقد مات فلها أن تسكن في نصيبها إن كان ما يصيبها من ذلك ما يكتفى به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها كذا في البدائع.....وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه كذا في البدائع."

(كتاب الطلاق، الباب الرابع عشر في الحداد، ج:1، ص:535، ط: دار الفكر بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لا يكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار......وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الإنتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة."

(كتاب الطلاق، فصل في أحكام العدة، ج:2، ص:204، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100462

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں