بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے سودی قرضہ لینے کا حکم


سوال

کیا بینک سے پیسے بطور قرض لیے جا سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ بینک سے قرض لینے کی صورت میں جو اضافی رقم بینک کولوٹائی جاتی ہے وہ سود ہے، جس کا لین دین شرعاً ناجائز ہے،اور اس کی حرمت  قرآنِ کریم  کی نص اورمتعدد احادیثِ صحیحہ سے سے ثابت ہے،اور ایسا معاملہ  کرنے والوں کے لیے سخت ترین  وعیدیں وارد ہوئی ہیں؛ اس لیے اس  قرض کی  اجازت نہیں دی جاسکتی،اور اس سے احترازضروری ہے،  اگر قرض لینا ہی ہو تو بینک کے علاوہ کسی اور  سے غیر سودی قرض حاصل کر لیاجاۓ، کیوں  کہ  انجام کارسودی قرضہ کاروبار میں ترقی کے بجائے تنزلی کا ذریعہ ہی  بنتاہے۔

البتہ اگر انتہائی سخت مجبوری ہو اور حالتِ اضطراری ہو کہ سودی قرض لیے بغیر چارۂ کار نہ ہو(مثلاً فاقوں تک نوبت پہنچ جائے اور جان جانے کا خطرہ ہو)  اور کوئی بھی غیر سودی قرض دینے کے لیے تیار نہ ہو   تو صرف بقدر ِ ضرورت سودی قرض لینے کی  گنجائش ہوگی،اس صورت میں  بھی سودی قرض دینے والا فرد یا متعلقہ  ادارے کے ذمہ داران گناہ گار ہوں گے اور  قرض لینے والے کو بھی چاہیے کہ وہ استغفار کرتا رہے، اور  حتی الامکان قدرِ ضرورت سے نہ بڑھے، اور ضرورت پوری ہوتے ہی فوری طور پر قرض کی ادائیگی کا انتظام کرے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

( كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ج:3، ص:1219، ط: دار إحياء التراث العربي)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

"لا خلاف بين الفقهاء في أن اشتراط الزيادة في بدل القرض للمقرض مفسد لعقد القرض، سواء أكانت الزيادة في القدر، بأن ‌يرد ‌المقترض أكثر مما أخذ من جنسه، أو بأن يزيده هدية من مال آخر، أو كانت في الصفة، بأن يرد المقترض أجود مما أخذ، وإن هذه الزيادة تعد من قبيل الربا.

قال ابن عبد البر: وكل زيادة في سلف أو منفعة ينتفع بها المسلف فهي ربا، ولو كانت قبضة من علف، وذلك حرام إن كان بشرط ، وقال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زيادة أو هدية، فأسلف على ذلك، أن أخذ الزيادة على ذلك ربا.

واستدلوا على ذلك: بما روي من النهي عن كل قرض جر نفعا  أي للمقرض. وبأن موضوع عقد القرض الإرفاق والقربة، فإذا شرط المقرض فيه الزيادة لنفسه خرج عن موضوعه، فمنع صحته؛ لأنه يكون بذلك قرضا للزيادة لا للإرفاق والقربة؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب."

(قرض، اشتراط الزيادة للمقرض، ج:33، ص:130،131، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر میں ہے:

"قوله: يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح، وذلك نحو أن يقترض عشرة دنانير مثلا، ويجعل لربها شيئا معلوما في كل يوم ربحا."

(‌‌‌‌الفن الأول قول في القواعد الكلية، القاعدة الخامسة الضرر يزال ويتعلق بها قواعد، السادسة الحاجة تنزل منزلة الضرورة، عامة كانت أو خاصة، ج:1، ص:294، ط:دارالكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:

"الضرورات تبيح المحظورات، ومن ثم جاز أكل الميتة عند المخمصة وإساغة اللقمة بالخمر، والتلفظ بكلمة الكفر للإكراه وكذا إتلاف المال، وأخذ مال الممتنع الأداء من الدين بغير إذنه ودفع الصائل، ولو أدى إلى قتله."

(‌‌‌‌الفن الأول قول في القواعد الكلية، القاعدة الخامسة الضرر يزال ويتعلق بها قواعد، الأولى: الضرورات تبيح المحظورات، ج:1، ص:275،276، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100674

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں