بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے گاڑی لینے کا حکم


سوال

بینک سے کار لینا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

قسطوں پر گاڑی یا دیگر اشیاء لینا جائز ہے، البتہ شرط یہ ہے کہ عقد کے وقت  ہی کوئی ایک قیمت متعین کرلی جائے اور  مجلسِ عقد میں ہی یہ طے کرلیا جاۓ کہ معاملہ نقد پرہوگا یا  قسطوں پر، اور ادھار کی صورت میں  مدت طے کرلی جائے، اور  کل قسطیں اور ہر قسط کی مدت بھی متعین  کرلی جائے اور قسط میں تاخیر ہونے کی صورت میں کوئی  جرمانہ وصول نہ کیاجائے۔

  اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو بینک سے گاڑی وغیرہ کی خرید جائز ہے ورنہ یہ بیع ناجائز اور سود کے حکم میں ہوگی۔ تاہم    چوں کہ  بینک اس معاملے میں  متعلقہ شرعی  شرائط کا لحاظ نہیں رکھتے، مثلًا: روایتی بینک تو قسط کی تاخیر پر جرمانہ وصول کرتے ہیں، جب کہ مروجہ غیر سودی بینک جرمانے کے عنوان سے اضافی رقم وصول کرنے کے بجائے جبری صدقے کا التزام کرواتے ہیں، اس شرط کی وجہ سے بھی عقد ناجائز ہوجاتاہے۔ نیز بینک سے قسطوں پر گاڑی لینے میں ایک عقد میں دوسرا عقد داخل کرنا لازم آتاہے،  ایک بیع (خریدوفروخت) اور دوسرا اجارہ (کرایہ داری) کا عقدہوتا ہے    اور از روئے حدیث یہ ممنوع ہے؛ اس لیے مذکورہ شرعی قباحتوں کی وجہ سے بینک سے قسطوں پر خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔ 

جامع ترمذی میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين» في بيعة...والعمل على هذا عند أهل العلم، وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة، وبنسيئة بعشرين - ولا يفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما."

(‌‌أبواب البيوع  عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،‌‌ باب ما جاء في النهي ‌عن ‌بيعتين ‌في بيعة، 513/2،ط:دار الغرب الإسلامي)

شرح المجلہ لسلیم رستم باز میں ہے: 

"البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح، یلزم أن تکون المدّة معلومة فی البیع بالتأجیل والتقسیط."

(الكتاب الأول في البيوع، الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالثمن،الفصل الثاني: في بيان مسائل المتعلقة بالنسيئة والتأجيل، المادة: 245،246، 100/1، ط:رشيدية)

فتاوی شامی  میں ہے:

"قوله: (لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح:  وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز اه، ومثله في المعراج وظاهره: أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية : ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اه،  ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان   قوله ( وفيه الخ ) أي: في البحر حيث قال: وأفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عند مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، باب التعزير، مطلب في التعزير بأخذ المال، 61/4، ط:سعيد)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100332

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں