بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک اسٹیٹمنٹ کے لیے دی گئی رقم کے عوض پیسے لینا


سوال

 ہمارا ایک تعلیمی ادارہ ہے جس کے ذریعے ہم طالب علم کو بیرون ممالک میں پڑھنے  کے لیے بھیجتے ہیں، اس عمل میں ایک مرحلہ ہے جس کو بینک اسٹیٹمنٹ کہا جاتا ہے، اور طالب علم کو یہ بینک اسٹیٹمنٹ فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے، بینک اسٹیٹمنٹ تقریباً 50 لاکھ یا 60 لاکھ روپے کا ہر طالب علم سے مطلوب ہوتا ہے جو اسٹوڈنٹ کے نام سے اکاؤنٹ میں موجود ہونا لازمی ہے، اب اکثر صورتِ  حال ایسی ہوتی ہے کہ طالب علم کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی، لہذا وہ اپنے کسی رشتہ دار سے ادھار لے لیتا ہے اور بینک میں اپنے نام سے بنائے گئے اکاؤنٹ میں رکھوا لیتا ہے؛ تاکہ بینک سے بینک اسٹیٹمنٹ وصول کرکے بطورِ ثبوت بیرون ملک کی یونیورسٹی کو دکھا سکے،مگر جس کے پاس اس طرح کا کوئی انتظام یا بندوبست نہیں ہوتا تو وہ پھر تیسری پارٹی سے معاملہ کرتا ہے،  وہ تیسری پارٹی اس کے اکاؤنٹ میں مطلوبہ رقم رکھوا لیتی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اس سے چیک بک اور ATM لے لیتی ہے اور اس رقم پر اس طالب علم کو کوئی اختیار نہیں دیتا اور  طالب علم اس کو اپنے کسی استعمال میں نہیں لا سکتا، وقت پورا ہونے پر بینک سے بینک اسٹیٹمنٹ وصول کرکے یونیورسٹی کو فراہم کرتا ہے؛ تاکہ اس کو ویزا مل سکے، اس کے بعد تیسری پارٹی اپنی رقم بینک سے نکلوا لیتی ہے؛ لیکن یہ تیسری پارٹی اپنی رقم طالب علم کے لیے اس کے اکاؤنٹ میں اتنی مدت تک رکھتی ہے تو اس کے بدلے میں وہ طالب علم سے کچھ پیسے لیتی ہے جو آج کل تقریبًا 5 یا 6 لاکھ روپے ہیں۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا تیسری پارٹی کا طالب علم کے اکاؤنٹ  میں اس طریقہ سے رقم رکھوانا جس پر طالب علم کو کچھ اختیار بھی نہیں ، قرض ہے یا نہیں؟ اور اگر یہ قرض نہیں تو پھر جو منافع تیسری پارٹی لیتی ہے کیا وہ جائز ہے یا سود کے زمرے میں آتا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ قرض کی ادائیگی کا ضابطہ یہ ہے کہ جتنا قرض دیا جائے اس کے مثل ہی واپس لیا جائے اور قرض پر کسی بھی  صورت میں مشروط نفع لینا سود ہے اور  سود شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں تیسری پارٹی کا بینک اسٹیٹمنٹ کے لیے طالب علم کے اکاؤنٹ میں  رقم منتقل کرنا قرض ہی ہےاس لیے کہ رقم طالب علم کے اکاؤنٹ میں ہوتی ہے اگرچہ وہ رقم کی منتقلی کے بعد اس سے چیک بک اور اے ٹی ایم کارڈ لے لیتے ہیں ، لیکن اسے منسوخ کراکر نئی چیک بک کےذریعہ اس اکاؤنٹ سے استفادہ ممکن ہے  لہذا  تیسری پارٹی کا مقررہ مخصوص مدت تک طالب علم کے اکاؤنٹ میں رقم رکھ کر اس پر طالب علم سے 5یا 6 لاکھ روپے اضافی  وصول کرنا شرعاً سود میں داخل ہے، اس لیے ناجائز اور حرام ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

(الصحیح لمسلم،باب لعن آكل الربا ومؤكله،رقم الحديث:1598، ط:دار احیاء التراث العربي)

ترجمہ : ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُود کھانے والے(لینے والے) پر،سُود کھلانے والے(دینے والے) پر اس کے لکھنے والے پر،اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس(گناہ) میں وہ سب برابر ہیں۔“

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں  ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(کتاب البیوع، باب القرض: ج:1، ص:500 ، ط: قدیمی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: کلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي: إذا کان مشروطًا کما علم مما نقله عن البحر."

(مطلب کل قرض جر نفعًا حرام، فصل في القرض، باب المرابحة والتولیة، ص:166، ج:5، ط:سعید)

اعلاء السنن میں ہے:

"وکل قرض شرط فیه الزیادۃ فهو حرام بلا خلاف، قال ابن المنذر: أجمعوا علی أن المسلف إذا شرط علی المستسلف زیادۃً أو ہدیةً، فأسلف علی ذٰلک أن أخذ الزیادۃ علی ذٰلک ربا، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیه وسلم: کل قرض جر منفعةً فهو ربا."

(کتاب الحوالة، باب کل قرض جر منفعة فهو ربا: ج:14ص:513 ط: إدارۃ القرآن کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100540

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں