بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے گاڑی خریدنے والے سے گاڑی خریدنے کا حکم


سوال

میں دبئی میں رہائش پزیر ہوں، میرے ایک دوست نے دبئی الاسلامی بینک یا ابوظبی الاسلامی بینک سے گاڑی قسطوں پر خریدی ہے، اب میں ان سے وہ گاڑی خریدناچاہتا ہوں، تو کیا اس میں شرعا کوئی حرج ہے یا نہیں؟، کیوں کہ میں نے سنا ہے کہ بینک سے گاڑی خریدنا جائز نہیں، چاہے وہ اسلامی بینک ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور ہو، اگرچہ میں براہِ راست بینک گاڑی خریدنہیں رہااور نہ میرا کوئی بینک سے واسطہ ہوگا، لیکن اس آدمی کا بینک سے واسطہ ہوگا، قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں بینک سے قسطوں پر لی گئی گاڑی کو اس کے مالک سے کل قیمت مقرر کرکے خریدنا  درست ہے، بشرطیکہ خریدار قیمت یا قسطوں کی ادائیگی کا معاملہ بینک سے نہ کرے، اس صورت میں بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدنے کا گناہ صرف بینک سے خریدنے والے پر ہوگا،لیکن اگر اس نے گاڑی اس کے مالک سے خرید کر یہ معاہدہ کیا کہ بینک کی بقیہ قسطیں میں بھروں گا تو یہ خرید و فرخت درست نہیں، اس گناہ میں یہ خریدار بھی شریک ہوگا۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية )  میں ہے:

"إذا تصرف في المغصوب وربح فهو على وجوه إما أن يكون يتعين بالتعيين كالعروض أو لا يتعين كالنقدين فإن كان مما يتعين لا يحل له التناول منه قبل ضمان القيمة وبعده يحل إلا فيما زاد على قدر القيمة وهو الربح فإنه لا يطيب له ولا يتصدق به وإن كان مما لا يتعين فقد قال الكرخي: إنه على أربعة أوجه إما إن أشار إليه ونقد منه أو أشار إليه ونقد من غيره أو أطلق إطلاقا ونقد منه أو أشار إلى غيره ونقد منه وفي كل ذلك يطيب له إلا في الوجه الأول وهو ما أشار إليه ونقد منه قال مشايخنا لا يطيب له بكل حال أن يتناول منه قبل أن يضمنه وبعد الضمان لا يطيب الربح بكل حال وهو المختار والجواب في الجامعين والمضاربة يدل على ذلك واختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام." 

(كتاب الغصب، الباب الثامن في تملك الغاصب والانتفاع به، ج:5، ص:141، ط:مكتبه رشيديه) 

فقط والله  اعلم 


فتوی نمبر : 144306100445

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں