بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک میں جمع شدہ مسجد کی رقم پر انٹرسٹ ملنے والی رقم سے مسجد کے بیت الخلاء تعمیر کرنے کا حکم


سوال

 مسجد کی رقم مسجد کے کھاتے میں یا مسجد کے سکریٹری کے کھاتے میں جمع ہے،  اس جمع رقم پر بینک کی طرف سے  ملنے والے انٹرسٹ یعنی سودی رقم کو مسجد یا مسجد سے متعلق وضو خانہ، پیشاب خانہ،  طہارت خانہ وغیرہ میں خرچ کرنا کیسا ہے ؟ یا اس کا بہتر مصرف کیا ہے ؟

جواب

بینک  میں رقم رکھوانے پر بینک کی طرف سے جو منافع ملتا ہے وہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے،اور جس طرح سودی رقم کا استعمال کرنا حرام ہے اسی طرح سودی رقم کو وصول کرنا بھی حرام ہے، نیز بینک کی طرف سے اکاؤنٹ میں یہ رقم ڈالے جانے کے باوجود کوئی بھی اس سودی رقم کا مالک نہیں بنتا ہے ، چناں چہ کسی بھی صورت اس سودی رقم کا اکاؤنٹ سے نکلوانا اور وصول کرنا ہی جائز نہیں ہے، چاہے اپنے استعمال کی نیت ہو یا کسی ضرورت فرد یا ادارے کو دینے کی نیت ہو، البتہ اگر   کسی شخص کو مسئلہ معلوم نہ تھا اور اس نے یہ رقم وصول کر لی ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ پہلے تو وہ یہ کوشش کرے کے جہاں سے یہ سودی رقم لی ہے اسی کو واپس کردے، لیکن اگر باوجود کوشش کے اسی شخص یا ادارے کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو پھر کسی ضرورت مند مستحقِ زکاۃ غریب شخص کو یہ رقم ثواب کی نیت کے بغیر دے دے۔

بصورتِ مسئولہ بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا ہی شرعاً جائز نہیں ہے اور  پھر مسجد  کی موقوفہ رقم اس میں رکھوانا تو اور بھی بڑا گناہ اور  غضبِ خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، اس  لیے سب سے پہلے اس سیونگ  اکاؤنٹ کو  ختم کروایا جائے، اور اب تک جو  اس اکاؤ نٹ سے نفع جمع ہوا  وہ شرعاً سود ہے، اس سے توبہ  و استغفار  کا طریقہ  یہ  ہے کہ  اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس رقم کو بینک سے وصول ہی نہ کیا جائے، اگر  وصول کرلیا ہے تو بینک کے کسی بھی اکاؤنٹ کا انٹرسٹ مسجد  کے کسی بھی حصے میں چاہے وہ بیت الخلاء ہو  یا غسل خانہ ہو،  لگانا جائز نہیں ہے، البتہ اس سے طریقہ خلاصی یہ ہے کہ  اولًا یہ وہیں لوٹادی جائے جہاں سے آئی ہے، یا پھر اس رقم کو  ثواب کی نیت کے بغیر کسی مستحق کے حوالے کردے ۔

الجامع لاحکام القرآن (تفسیر قرطبی)  میں ہے:

"إن سبيل التوبة مما بيده في الاموال الحرام إن كانت من ربا، فليردها علي من اربي عليه، ويطلبه إن لم يكن حاضرا فإن أيس من وجوده فليتصدق بذالك عنه."

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:275، ج:3، ص:348،ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)

فتاوی عالمگیری (الفتاوی الہندیۃ)  میں ہے:

"ان کان المال بمقابلة المعصية فكان الأخذ معصية والسبيل في المعاصي ردها وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه وبالتصدق به إن لم يعرفه ليصل إليه نفع ماله إن كان لا يصل إليه عين ماله."

(کتاب الکراہیۃ، الباب الخامس عشر فی کسب الحرام، ج:5، ص:349،ط:مکتبة حقانیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144210201384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں