بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کی وجہ سے آٹھ سال کے بچے کو ماں کو دودھ پلانا


سوال

بچہ بہت کمزور ہے اس کی والدہ خود بھی ڈاکٹر ہے اور اس نے بہت سے ڈاکٹرز کو بچے کا چیک اپ کریا لیکن سب ڈاکٹروں کی ایک ہی رائے  ہے کہ بچے کو صرف ماں ہی کا دودھ پلایا جائے،  جب کہ اس بچے کی عمر آٹھ سال ہے ، کیا اب اس صورت میں ماں اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے؟

جواب

 صورت مسئولہ میں رضاعت  کی مدت (دو سال ) کے بعد بچہ کو دودھ پلانا جائز نہیں ہے، بلکہ حرام ہے؛ اس لیے   مذکورہ آٹھ سال کے لڑکے کو ماں کا دودھ پلانے کے بجائے متبادل دوسری غذا کھلائی جائے، حرام غذا یا دوا استعمال کرنے گنجائش تب ہوتی ہے  جب حلال غذا یا دوا  بالکل نہ ملتی  ہوں اور حرام کے بغیر زندگی کو خطرہ ہو اور  ماہر دین دار ڈاکٹر مذکورہ بچے کو  کسی بیماری کے سبب ماں کا دودھ بطورِ دوا  تجویز کرے  اور واقعۃً  اس کے علاوہ اس بیماری کا علاج کسی اور ذریعہ سے ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں بقدر ِ ضرورت  اسے اپنی والدہ کا  دودھ نکال کر  پلانا جائز ہوگا ، وگرنہ جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولم يبح الإرضاع بعد مدته) لأنه جزء آدمي ‌والانتفاع ‌به ‌لغير ‌ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية. 

(قوله: ولم يبح الإرضاع بعد مدته) اقتصر عليه الزيلعي، وهو الصحيح كما في شرح المنظومة بحر، لكن في القهستاني عن المحيط: لو استغنى في حولين حل الإرضاع بعدهما إلى نصف ولا تأثم عند العامة خلافا لخلف بن أيوب اهـ ونقل أيضا قبله عن إجارة القاعدي أنه واجب إلى الاستغناء، ومستحب إلى حولين، وجائز إلى حولين ونصف اهـ."

(کتاب النکاح، باب الرضاع، 3/ 211، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"فرع اختلف في التداوي بالمحرم. وظاهر المذهب المنع كما في ‌إرضاع ‌البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما خص الخمر للعطشان وعليه الفتوى. اهـ. ح."

(کتاب النکاح، باب الرضاع،3/ 211،ط: سعید)

فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں اسی نوع کے ایک سوال کے جواب میں  ہے:

"مدتِ رضاعت کے بعد تداوی کے لیے عورت کے  دودھ کا  استعمال اس وقت جائز  ہے  جب اس میں شفا بقولِ طبیبِ حاذق مسلمان ثابت ہو اور کوئی دوسری دوا اس کے قائم مقام نہ ہو۔"

(کتاب النکاح،8/ 319،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144505100748

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں