بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیمار عورت کا کسی اور سے زیر ناف بال صاف کرانا


سوال

والد صاحب بیمار ہیں اور والدہ بھی زندہ نہیں ۔کیا ان کے زیرِ ناف بال بیٹا یا بھائی صاف کر سکتا ہے؟

اس طرح بیٹی والدہ کے زیر ناف بال صاف کر سکتی ہے؟ البتہ مخالف جنس ہونے کی صورت میں بیٹے یا بیٹی کے لیے والدہ یا والد کے زیرِ ناف حصے کو چھونا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی اور انتظام نہ ہو۔مجبوری ہو۔بیٹے کے علاوہ ماں کو بیماری میں سنبھالنے والا نہ ہو۔تو پھر بھی یہی حکم ہوگا؟

جواب

اگر والد صاحب اس قدر بیمار ہیں کہ بیماری کی وجہ سے اپنے زیر ناف بال بھی خود سے صاف نہیں کرسکتے اور بالوں کے بڑے ہونے کی وجہ سے اذیت ہو تو   بیوی کے نہ ہونے کی وجہ سےمجبوراً  بھائی یا بیٹا ہاتھوں پر دستانے (میڈیکل گلوز وغیرہ )  چڑھاکر (جس سے اعضاء کی جسامت حتی الامکان محسوس نہ ہو) شرم گاہ پر نظر ڈالے بغیر کسی کریم وغیرہ سے ان کے زیر ناف بال صاف کرسکتے ہیں،  شرم گاہ کی طرف دیکھنے کی اجازت پھر بھی نہیں ہوگی۔

یہی حکم بیٹی کے لیے والدہ کے زیرِ ناف بالوں کی صفائی کے سلسلے میں ہے کہ اگر شوہر زندہ نہیں ہے، اور عورت کسی طرح بھی کریم وغیرہ سے بال صاف نہیں کرسکتی تو بیٹی  والدہ کے بال مذکورہ طریقے سے صاف کرسکتی ہے۔

البتہ اگر بیٹی حیات نہیں ہے تو والدہ کے لیے کسی اور خاتون(اگرمحرم ہوتو بہتر ہے)سے مذکورہ  طریقے سے بال  صاف کراسکتےہیں۔لیکن مخالف جنس ہونے کی صورت میں بیٹے یا بیٹی کے لیے والدہ یا والد کے زیرِ ناف حصے کو چھونا بھی جائز نہیں ہے۔

المحیط  البرہانی میں ہے:

"وذكر الفقيه أبو الليث رحمه الله في «فتاويه» في باب الطهارات؛ قال محمد بن مقاتل الرازي: لا بأس بأن يتولى صاحب الحمام عورة إنسان بيده عند التنوير إذا كان يغض بصره كما أنه لا بأس به إذا كان يداوي جرحاً أو قرحاً، قال الفقيه: وهذا في حالة الضرورة لا في غيرها؛ لأن كل موضع لا يجوز النظر إليه لا يجوز مسه، إلا من فوق الثياب، وينبغي لكل أحد أن يتولى عانته بيده إذا تنور، فإنه روي عن النبي عليه السلام كان يتولى ذلك بنفسه.

وإذا أصابت المرأة قرحة في موضع لا يحل للرجل أن ينظر إليه، علم امرأة دواءها لتداويها؛ لأن نظر الجنس إلى الجنس أخف وكذا في امرأة العنين تنظر إليها النساء، فإن قلن: هي بكر  فرق القاضي بينهما، وكذا لو اشترى جارية على أنها بكر، فقبضها فقال: وجدتها ثيباً؛ تنظر إليها النساء للحاجة إلى فصل الخصومة، وإن لم يجدوا امرأة تداوي تلك القرحة، ولم يقدروا على امرأة تعلم ذلك، وخافوا أنها تهلك، أو يصيبها بلاء أو وجع، فلا بأس بأن يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها رجل، ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع؛ لأن نظر الجنس إلى غير الجنس أغلظ، فيعتبر فيه تحقق الضرورة، وذلك عند خوف الهلاك، وذوات المحارم والأجنبيات في هذا على السواء؛ لأن النظر إلى العورة لا يحل بسبب المحرمية."

(کتاب الاستحسان والکراہیۃ،ج5،ص377،ط؛دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں