بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیمار عورت کے لیے رمضان کے روزوں کا حکم


سوال

میری بہن کی طبیعت خراب ہے ،گردوں میں تکلیف ہے اور شوگر بھی  زیادہ رہتی ہے ،پچھلے رمضان کے قضاء روزے بھی وہ اس طرح رکھتی ہے کہ ہفتہ میں ایک روزہ  یا دوہفتوں میں ایک روزہ رکھ لیا ،اب ڈاکٹر نے اس سے بھی منع کیا ہے ،دوہفتوں میں روزہ رکھنے پر طبیعت خراب ہوتی ہے ،اب پچھلے رمضان کے 14 روزے باقی ہیں اور آگے رمضان آرہاہے ۔

1۔اب سوال یہ ہے  کہ جو پچھلے  رمضان کے 14 روزے باقی ہیں ،ان کا کیا حکم ہے ؟اور اگر فدیہ دیدے  تو اس کا کیا حکم ہے ؟

2۔آگے جو رمضان آرہا ہے اس کے روزوں کا کیا حکم ہے ؟

 جس طرح پچھلے سال کے روزے رکھے تھے کہ دوہفتوں میں ایک روزہ رکھ لیا ،اگر اس رمضان کے بعد روزے رکھنا شروع کیا تو کیا پھر وہ پچھلے سال کے جو 14 روزے ہیں اس کا کیا حکم ہوگا ؟کیونکہ بعد میں بھی وہ روزانہ قضاء روزے  نہیں رکھ سکتیں ۔شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ  میں سائل کی بہن    کے لیے اگر مذکورہ بیماریوں  کی وجہ روزہ رکھنا بہت مشکل ہے  یا بیماری بڑھ جانے یا کسی تکلیف میں مبتلا ہونے کا غالب گمان ہے تو ان کے لیے   فی الحال روزہ  نہ رکھنے کی اجازت ہے، لیکن جب تک صحت کی توقع ہو  فدیہ دینا کافی نہیں ہوگا، بلکہ  صحت کے بعد قضا لازم ہوگی ۔ یعنی  اگر وہ لگاتار روزے نہیں رکھ سکتیں، وقفے وقفے سے رکھ سکتی ہیں تو وقفے سے روزے رکھیں، اور جو روزے چھوٹ جائیں ان کی قضا پورے سال میں متفرق طور پر کرتی رہیں۔یہی حکم پچھلے سال کےرمضان کے  قضا روزوں کا بھی ہے کہ رمضان کے بعد حسب سہولت وقفہ وقفہ سے قضا کرلیں ۔

  اور اگر  روزہ رکھنے کی  بالکل طاقت  نہیں ہے  اور آئندہ تاحیات صحت یابی کی امید بھی نہیں ہے،  تو ایسی حالت میں زندگی میں روزہ کا فدیہ  دینا درست ہوگا، ہر روزہ کے بدلے پونے دو کلو  گندم یا اس کی قیمت کسی مستحق شخص کو دیدی جائے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(ومنها: كبر السن) فالشيخ الفاني الذي لا يقدر على الصيام يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا كما يطعم في الكفارة كذا في الهداية. والعجوز مثله كذا في السراج الوهاج. وهو الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت كذا في البحر الرائق. ثم إن شاء أعطى الفدية في أول رمضان بمرة، وإن شاء أخرها إلى آخره كذا في النهر الفائق.ولو قدر على الصيام بعد ما فدى بطل حكم الفداء الذي فداه حتى يجب عليه الصوم هكذا في النهاية."

(کتاب الصوم ،الباب الخامس فی الأعذار التي تبیح الإفطار ،ج:۱،ص:۲۰۷،دارالفکر)

البحر الرائق میں ہے :

"(قوله: لمن خاف ‌زيادة ‌المرض الفطر) لقوله تعالى {فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر} [البقرة: 184] فإنه أباح الفطر لكل مريض لكن القطع بأن شرعية الفطر فيه إنما هو لدفع الحرج وتحقق الحرج منوط بزيادة المرض أو إبطاء البرء أو إفساد عضو ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة الظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق وقيل عدالته شرط فلو برأ من المرض لكن الضعف باق وخاف أن يمرض سئل عنه القاضي الإمام فقال الخوف ليس بشيء كذا في فتح القدير وفي التبيين والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض ومراده بالخشية غلبة الظن كما أراد المصنف بالخوف إياها وأطلق الخوف ابن الملك في شرح المجمع وأراد الوهم حيث قال لو خاف من المرض لا يفطر وفي فتح القدير الأمة إذا ضعفت عن العمل وخشيت الهلاك بالصوم جاز لها الفطر."

(کتاب الصوم ،فصل في عوارض الفطر في رمضان،2/ 303ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100051

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں