بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیمار اگر صحت کا زمانہ نہ پائے تو قضا شدہ روزوں کے فدیہ کا حکم


سوال

گزشتہ رمضان میں میرے تایا ابو سخت بیمار تھے ،( ان کے گردے  ختم تھے، اور جگر نے بھی کام چھوڑ دیا تھا ،) روزہ نہیں رکھ سکے تھے، پھر اسی بیماری میں   20 شوال کو انتقال ہو گیا، ہم ان کے روزوں کے فدیہ کے بارے میں سوچ رہے ہیں، برائے کرم آپ ہمیں ان کے بارے میں صحیح راہ نمائی فرما دیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس  کی وجہ سے  اس میں روزہ رکھنے کی بالکل طاقت ہی نہ ہو،اور  وہ رمضان کے فرض روزے ادا نہیں کرسکا پھر    اسی بیماری میں اس کا  انتقال ہو جائے اور   صحت کا زمانہ نہ ملا ہو  تو اس پر ان روزوں کا فدیہ لازم نہیں ہوتا۔

لہذا سائل کے تایا اگر اپنی بیماری کی وجہ سے رمضان کے روزے نہیں رکھ سکے تھے، اور پھر بعد میں ان روزوں کی قضا کی بھی مہلت نہیں مل سکی تو ایسی صورت میں سائل کے تایا پر ان روزوں کا فدیہ لازم نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فإن ماتوا فيه)  أي في ذلك العذر (فلا تجب) عليهم (الوصية بالفدية) لعدم إدراكهم عدة من أيام أخر (ولو ماتوا بعد زوال العذر وجبت) الوصية بقدر إدراكهم عدة من أيام أخر. 

(قوله: فإن ماتوا إلخ) ظاهر في رجوعه إلى جميع ما تقدم حتى الحامل والمرضع وقضية  صنيع غيره من المتون اختصاص هذا الحكم بالمريض والمسافر. وقال في البحر: ولم أر من صرح بأن الحامل والمرضع كذلك، لكن يتناولهما عموم قوله في البدائع من شرائط القضاء القدرة على القضاء فعلى هذا إذا زال الخوف أياما لزمهما بقدره بل ولا خصوصية فإن كل من أفطر بعذر ومات قبل زواله لا يلزمه شيء فيدخل المكره والأقسام الثمانية. اهـ.ملخصا من الرحمتي (قوله: أي في ذلك العذر) على تقدير مضاف أي في مدته (قوله: لعدم إدراكهم إلخ) أي فلم يلزمهم القضاء ووجوب الوصية فرع لزوم القضاء وإنما تجب الوصية إذا كان له مال في شرح الملتقى ط (قوله: بقدر إدراكهم إلخ) ينبغي أن يستثنى الأيام المنهية لما سيأتي أن أداء الواجب لم يجز فيها قهستاني."

(2 / 423، كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508102364

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں