بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلی اور کتے کو قتل کا حکم


سوال

کتے اور بلی جیسے بے زُبان جانور کو قتل کرنا کیسا ہے ؟

جواب

از رُوئے شرع صرف موذی جانوروں کو جب کہ وہ ایذاء رسان ہو مارنے کی اجازت ہے،اس کے علاوہ عام حالات میں ایسا جانور جو ایذاء رساں نہ ہو تو ان کا مارنا یا کسی بھی طرح سے ستانا  گناہ ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر بلی اور کتا ضرر رساں نہیں ہے، تو ان کوقتل کرنا یا کسی بھی طرح سے تکلیف دینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر بلی ضرر رساں ہے، اور اس سے چھٹکارے کی کوئی بھی معقول  صورت (مثلاً کہیں دور جنگل وغیرہ میں چھوڑدینے ) نہ ہو تو اس کو ایسے طریقے سے قتل کرنا کہ تکلیف نہ ہو مثلاً گولی سے مارنا یاچھری سے ذبح کرنا جائز ہے۔

اسی طرح کتااگر ضرر رساں ہو تو اس کو بھی قتل کرنا جائز ہے، لیکن کتے کو بھی قتل کرنے میں ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ  تکلیف کم سے کم ہو، مثلاً: گولی وغیرہ سے قتل کرنا یا تیز چھری سے ذبح کرنا وغیرہ، تڑپا یا ترسا کر مارنے کی شرعًا اجازت نہیں ہے۔

شرح النووي على صحیح مسلم میں ہے:

"حدثني عبد الله بن محمد بن أسماء الضبعي، حدثنا جويرية بن أسماء، عن نافع، عن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «عذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار، لا هي أطعمتها وسقتها، إذ حبستها، ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض»

قوله صلى الله عليه وسلم (عذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار لا هي أطعمتها وسقتها إذ حبستها ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض) فى رواية ربطتها وفي رواية تأكل من حشرات الأرض معناه عذبت بسبب هرة ومعنى دخلت فيها أى بسببها وخشاش الأرض بفتح الخاء المعجمة وكسرها وضمها حكاهن في المشارق الفتح أشهر وروي بالحاء المهملة والصواب المعجمة وهي هوام الأرض وحشراتها كما وقع في الرواية الثانية وقيل المراد به نبات الأرض وهو ضعيف أو غلط وفي الحديث دليل لتحريم قتل الهرة وتحريم حبسها بغير طعام أو شراب وأما دخولها النار بسببها فظاهر الحديث أنها كانت مسلمة وإنما دخلت النار بسبب الهرة وذكر القاضي أنه يجوز أنها كافرة عذبت بكفرها وزيد في عذابها بسبب الهرة واستحقت ذلك لكونها ليست مؤمنة تغفر صغائرها باجتناب الكبائر هذا كلام القاضي والصواب ماقدمناه أنها كانت مسلمة وأنها دخلت النار بسببهاكما هو ظاهر الحديث وهذه المعصية ليست صغيرة بل صارت بإصرارها كبيرة".

(كتاب قتل الحيات وغيرها، باب قتل الہرۃ، ج:14، ص:240، ط:داراحیاء التراث العربی)

فتاوی شامی ہے:

"(وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحًا) ولايضر بها؛ لأنه لايفيد، ولايحرقها وفي المبتغي: يكره إحراق جراد وقمل وعقرب،(قوله: وهرة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج زيلعي (قوله ويذبحها) الظاهر أن الكلب مثلها تأمل (قوله يكره إحراق جراد) أي تحريما ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحية".

(مسائل شتی، ج:6، ص:752، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں