بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری سے حفاظت کی ایک دعاء سے متعلق روایت کی تحقیق


سوال

ایک شخص نے عرض کیا :یا رسول اللہ! میں بیمار رہتا ہوں، میری صحت کے لیےدعا فرمائیں، آپ نے فرمایا :کھانے پینے کے وقت یہ دعا پڑھا کرو:"بِسْمِ اللهِ الَّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ دَاءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ  يَا حَيُّ  يَا قَيُّومُ".(کنز  العمال: ۱۵/۱۸۱)

مذکورہ روایت اگر ثابت ہے تو اس کا حوالہ چاہیے۔

جواب

سوال میں آپ نے جس حدیث کے متعلق  دریافت کیا ہے، یہ حدیث "كنز العمال"، "جامع الأحاديث"، "جمع الجوامع"وغیرہ میں بحوالہ "مسند الفردوس للديلمي" بغیر کسی سند کے مذکور ہے۔ البتہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کی "الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس، المسمى"زهر الفردوس"میں  یہ حدیث ، سند کے ساتھ مذکورہے۔تاہم یہ واضح رہے کہ  سوال میں آپ نے   حدیث کا جو ترجمہ ذکر کیا ہے، اس میں کچھ حصہ ترجمہ سے رہ گیا ہے، اس لیے اسے حدیث کا ترجمہ تو نہیں، البتہ مفہوم کہا جاسکتا ہے۔ "الغرائب الملتقطة"    کی  روایت  کے الفاظ درج ذیل  ہیں:

"أخبرنا أبي، أخبرنا البجليُّ، أخبرنا ابنُ لالٍ، أخبرنا ابنُ كاملٍ، حدّثنا محمّد بنُ يونسَ، حدّثنا عبد الله بنُ بُكير، حدّثنا نافع بنُ عبد الله السُّلَميُّ عن أنسٍ قال: جاء أعرابىٌّ إلى رسول الله - صلّى الله عليه وسلّم -  فقال: يارسولَ الله! إنِّى رجلٌ مِسقامٌ، لا يستقيمُ بدنى على طعامٍ ولا على شرابٍ، فادعُ لى بِالصّحة، فقال: إذا أكلتَ طعاماً أو شربتَ شراباً فقُل:"بِسْمِ اللهِ الَّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ  فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ  يَا حَيُّ  يَا قَيُّومُ".

ترجمہ:

’’حضرت انس رضی اللہ  عنہ فرماتے ہیں: دیہات سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:اے اللہ کے رسول! میں بیمار رہتا ہوں، میرے  بدن کو کھانا پینا  راس نہیں آتا،آپ میرے لیے صحت کی دعا فرمادیجیے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم کوئی چیز کھاؤ یاپیوتو یہ دعا پڑھا  کرو:"بِسْمِ اللهِ الَّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ  فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ  يَا حَيُّ  يَا قَيُّومُ"("كنز العمال"اور"جامع الأحاديث"میں  دعاء کے الفاظ میں"شَيْءٌ"کی بجائے"دَاءٌ" کے الفاظ مذکور ہیں)‘‘۔

(الغرائب الملتقطة، حرف الباء، ج:3، ص:392-394، ط: حمعية دار البر، الإمارات العربية المتحدة-دبي)

علامہ محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ"الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة"میں مذکورہ حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"فيه: مُتهمٌ ومتروكٌ".

’’(اس( روایت کی سند) میں ایک راوی  متہم  ہے اور ایک متروک ہے)‘‘۔

(الفوائد المجموعة، كتاب الأطعمة والأشربة، ص:155، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)

حافظ ابنِ عراق رحمہ اللہ"تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة"میں  لکھتے ہیں:

"(مي) مِن طريق الكُديمي؛ وفيه أيضاً نافع السُّلمي متروكٌ".

’’(  "مسند الفردوس للديلمي"میں (یہ روایت)الکدیمی کے طریق سے مذکور ہے،اس  (کی سند)میں بھی  نافع(بن عبد اللہ) السلمی متروک ہے)‘‘۔

(تنزيه الشريعة، كتاب الأطعمة، الفصل الثالث، رقم:126، 2/265، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)

علامہ محمد طاہر پٹنی رحمہ اللہ "تذكرة الموضوعات"میں لکھتے ہیں:

"فيه الكُديميُّ متهمٌ، ونافع السُّلمي متروكٌ".

’’(اس(روایت کی سند) میں(محمد بن یونس) الکدیمی متہم ہے اور نافع(بن عبد اللہ) السلمی متروک ہے)‘‘۔

(تذكرة الموضوعات، باب آداب الطعام، ص:142، ط: إدارة الطباعة المنيرية)

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث:"عن أنسٍ قال: جاء أعرابىٌّ إلى رسول الله - صلّى الله عليه وسلّم -  فقال: يارسولَ الله! إنِّى رجلٌ مِسقامٌ، لا يستقيمُ بدنى على طعامٍ ولا على شرابٍ، فادعُ لى بِالصّحة، فقال: إذا أكلتَ طعاماً أو شربتَ شراباً فقُل:"بِسْمِ اللهِ الَّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ  فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ  يَا حَيُّ  يَا قَيُّومُ"(حضرت انس رضی اللہ  عنہ فرماتے ہیں:دیہات سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:اے اللہ کےرسول!میں بیمار رہتا ہوں، میرے بدن کوکھانا پینا راس نہیں آتا،آپ میرے لیے صحت کی دعا فرمادیجیے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم کوئی چیز کھاؤ یاپیوتو یہ دعا پڑھا  کرو:"بِسْمِ اللهِ الَّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ  فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ  يَا حَيُّ  يَا قَيُّومُ"  )کی سند میں   دو علتیں ہیں:

۱۔ اس  کی سند میں ایک روای   محمد بن یونس الکدیمی ،متہم ہے۔

۲۔اور   دوسرا  راوی نافع بن عبد اللہ السلمی ،متروک ہے۔

پھر  مذکورہ سند  کے علاوہ اس حدیث کی ہمیں   کوئی اور سند  بھی نہیں مل سکی جو اس کے لیے متابع یا شاہد بن سکے، اس لیے جب تک  کسی معتبر سند سے اس کا ثبوت نہ مل جائے ،اسے بیان کرنے سے احترزا کیا جائے۔

البتہ "سنن الترمذي"ودیگر  کتبِ حدیث میں یہی دعاء الفاظ کے معمولی فرق  کے ساتھ  درج ذیل الفاظ میں مذکور ہے:

"حدّثنا محمّد بنُ بشّارٍ، قال: حدّثنا أبو داود وهو الطيالسيُّ، قال: حدّثنا عبد الرحمن بنُ أبي الزِّناد عن أبيه عن أبان بنِ عثمان قال: سمعتُ عثمان بنَ عفّان-رضي الله عنه-، يقولُ: قال رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم-: مَا مِن عبدٍ يقولُ في صَباحِ كلِّ يومٍ ومَساءِ كلِّ ليلةٍ:"بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ العَلِيمُ"ثَلاثَ مرَّاتٍ، فَيَضرَّه شيءٌ. وكان أبانُ قد أصابَه طرفُ فَالجٍ، فجَعلَ الرجلُ ينظرُ إليه، فقال له أبانُ: مَا تنظرُ؟! أمَا إنّ الحديثَ كما حدّثتُك، ولكنِّي لم أقُلْهُ يَومئذٍ لِيمضيَ اللهُ عليَّ قدرَه".

ترجمہ:

’’(حضرت) ابان بن عثمان رحمہ اللہ کہتے ہیں:میں  نے (حضرت) عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ  کو فرماتے ہوئے سناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص  روزانہ  صبح اورشام  تین مرتبہ:"بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ العَلِيم"(ترجمہ:اس اللہ کے نام  سے(صبح /شام کرتا ہوں )  جس کے نام کے ساتھ  زمین وآسمان کی کوئی چیز ضرر نہیں پہنچا سکتی،اور وہ سب کچھ سننے والا(اور)جاننے والا ہے)پڑھے تو اسے کوئی چیز ضرر نہیں پہنچائے گی‘‘۔(حدیث کے راوی حضرت) ابان رحمہ اللہ کو ایک طرف فالج ہوا ہوا تھا،(جب انہوں نے یہ حدیث بیان کی تو)ایک شخص انہیں  گھورنے لگا( کہ خود انہوں نے  اس حدیث سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟!اور وہ فالج کا شکار  کیوں ہوگئے؟!)حضرت  ابان رحمہ اللہ (سمجھ گئے ،انہوں )نے اس شخص  سے کہا: تم کیا دیکھ ر ہے ہو؟!سنو! بلاشبہ حدیث ویسے ہی ہے جیسے میں نے تم سے بیان کی (یعنی نہ میں غلط بیانی کر رہاہوں،نہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے مجھ سے غلط بیانی کی ہے، حدیث بالکل صحیح ہے)،لیکن میں نے اس دن یہ دعاء نہیں پڑھی تھی  ( جس دن مجھ پر فالج کا حملہ ہوا ہے)تاکہ اللہ تعالی مجھ پر اپنا فیصلہ نافذ فر مادیں(’’سنن ابی داود‘‘ کی روایت میں ہے: میں اس دن غصہ میں تھاجس کی وجہ سے   میں  یہ دعاء پڑھنا بھول گیا،ا اسی دن  فالج کا حملہ ہوگیا ،او رجو تقدیرِ الہی میں تھا وہ پورا ہو کررہا)‘‘۔

امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث روایت کرنے کے بعد اس کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"هَذا حديثٌ حسنٌ صحيحٌ غريبٌ".

’’(یہ حدیث (سند کے اعتبار سے) حسن  صحیح غریب ہے)‘‘۔

(سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب ما جاء في الدعاء إذا أصبح وإذا أمسي، رقم:3388، 5/465، ط: مصطفى البابي الحلبي-مصر)

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ  ہر طرح  کی تکلیف سے حفاظت کے لیے صبح اور شام تین مرتبہ  پڑھی جانے والی  دعاء: "بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ العَلِيم"سے متعلق  یہ روایت ، سند کے اعتبار سے ’’حسن صحیح غریب ‘‘ ہے،لہذا اس روایت کو بیان کیا جا سکتا ہے اور اس پر عمل بھی کیا جا سکتا ہے۔  

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100067

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں