بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کے بعد حضرت ایوب علیہ السلام کی اولاد


سوال

حضرت ایوب  علیہ السلام کو بیماری کے بعد اللہ تعالی  نے کتنے بیٹے عطاء کیے تھے؟ّ

جواب

قرآنِ کریم میں سورۂ انبیاء اور سورۂ ص  میں حضرت  ایوب علیہ السلام کا واقعہ  مذکور ہے، جس میں آپ کو ایک شدید مرض( جس کی  نوعیت قرآنِ کریم واحادیثِ مبارکہ میں مذکور نہیں) لاحق   ہونے ،پھر دعا کےبعد اس سے صحت یاب ہونے اور بعد ازاں اللہ تعالی کی جانب سے اولاد عطا ہونے کا ذکر ہے۔سورۂ انبیاء میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

" وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِكْرَى لِلْعَابِدِينَ". 

(سورة الأنبياء:83)

ترجمہ:

’’اور ہم نے ان کو ان کا کنبہ عطافرمایااور ان کے ساتھ ان کے برابر اور بھی اپنی رحمتِ خاصہ کے سبب سے اور عبادت کرنے والوں کے لیے یادگارہنے کے سبب سے‘‘۔

(بیان القرآن، سورۃ الانبیاء،ج:۲،ص:۴۹۶، ط:ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ ملتان)

اور سورۂ ص میں  اللہ تعالی کا ارشادہے:

"وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنَّا وَذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ".

(سورة ص:43)

ترجمہ:

’’اورہم نے ان کو ان کا کنبہ عطافرمایااور ان کے ساتھ ان کے برابر اور بھی اپنی رحمتِ خاصہ کے سبب سےاور اہلٍِ عقل کے لیے یادگار رہنے کے سبب سے‘‘۔

(بیان القرآن،سورۃ ص،ص: ج:۳، ص:۲۷۷)

مذکور بالاآیاتِ کریمہ  کی تفسیر میں مفسرینِ کرام رحمہم  اللہ نےدوقول  ذکر کیے ہیں:

پہلا قول:

حضرت ایوب علیہ السلام کے مرض میں مبتلا ہونےکے زمانے میں ان کی ساری اولاد فوت ہوگئی تھی، پھر جب اللہ تعالی نے انہیں مرض سے   عافیت دی تو ان  کی ساری اولاد کو بھی  ( جو  علامہ قرطبی  رحمہ اللہ  کی تفسیر کے مطابق وقت ِ مقررہ سے پہلے فوت ہوگئی تھی،اُنہیں) زندہ کردیااور   اُتنی ہی اولاد انہیں(خواہ وہ حضرت ایوب علیہ  السلام ہی کے صلب سےہو، یا ان کی اولاد کی صلب سےہو) اَورعطافرمادی۔یہ معنی  حضرت عبد اللہ  بن مسعوداور حضرت عبد اللہ  بن عباس رضی اللہ عنہما،نیز حضرت حسن ،قتادہ،  ابنِ جریج ، کعب احبار، کلبی رحمہم اللہ  وغیرہ سے منقول ہیں۔حضر ت  شاہ عبد القادر صاحب رحمہ اللہ کی   بھی یہی رائےہے۔علامہ ثعلبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ قول  آیت کے ظاہر ِمعنی کے زیادہ قریب ہے۔

دوسرا قول:

حضرت ایوب علیہ السلام کےمرض میں مبتلا ہونے کے زمانے میں ان کی ساری اولاد  غائب  اورمنتشر ہوگئی تھی،پھر جب اللہ تعالی نے انہیں مرض سے عافیت دی تو  ان کی ساری اولاد (جو اُن سے غائب ومنتشر ہوگئی تھی، اللہ تعالی نے وہ  سب انہیں)  واپس لوٹادی،اور اتنی ہی اولاد  (خواہ وہ  حضرت ایوب علیہ السلام کے صلب سےہو، یاان کی اولاد  کے صلب سےہو) مزید عطافرمادی۔یہ معنی حسن اور عکرمہ رحمہما اللہ سے منقول ہیں۔ امام رازی وابنِ حبان رحمہما اللہ کا رجحان   بھی اسی  معنی کی  طرف ہے۔مولانا حفظ الرحمن سیو ہاروی رحمہ اللہ مذکورہ دونوں قول ذکرکرنے کے بعد لکھتےہیں:’’آیت میں دونوں معنی  کی گنجائش ہے‘‘۔

ابتلاءِ مرض سے قبل  اور بعدحضر ت ایوب علیہ السلام کی اولاد:

حضرت  عبد اللہ ابن ِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: حضرت  ایوب علیہ السلام کے سات بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں ،یہ سب فوت ہوگئے تھے،پھر جب اللہ تعالی نے انہیں عافیت دی تو ان سب کو   بھی زندہ کردیااور ان کی اہلیہ سے سات بیٹے اور سات بیٹیاں اور بھی پیدا ہوگئیں ۔ علامہ ثعلبی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ قول آیت کے ظاہرِمعنی کے زیادہ قریب ہے۔

 خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق  مرض میں مبتلا ہونے سے قبل  حضرت  ایوب علیہ السلام کے سات بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں،جو مرض میں مبتلا ہونے کے زمانے میں فوت ہوگئے تھے،پھر جب اللہ تعالی نے حضرت ایوب علیہ السلام کومرض سے عافیت دی تو  ان کی ساری اولاد  کو بھی زندہ کردیا، اور ان کی اہلیہ سےانہیں سات بیٹے اور سات بیٹیاں اور بھی عطافرمادیں، یوں مرض سے صحت یاب  ہونے  کے بعد انہیں چودہ بیٹے اور چودہ بیٹیاں  عطاہوئیں۔

"الدر المنثور في التفسير باالماثور"میں ہے:

"وأخرج ابنُ أبي شيبة وابنُ جريرٍ وابنُ المنذرِ والطبرانيُّ عن الضحّاك قال: بلغ ابنَ مسعودٍ أنّ مروان قال في هذه الآية: {وآتيناه أهلَه ومِثلَهم معهم} قال: أُوتي بأهلٍ غيرَ أهله، فقال ابنُ مسعودٍ: بل أُوتي بِأعيانهم ومِثلهم معهم.وأخرج ابنُ المنذر عن الحسن في قوله: {وآتيناه أهلَه ومِثلَهم معهم} قال: لم يكونُوا ماتُوا ولكنعم غيّبوا عنه فأتاه أهلُه {ومِثلَهم معهم} في الآخرة.وأخرج ابنُ جريرٍ عن ابن جُريجٍ في قوله: {وآتيناه أهلَه ومِثلَهم معهم} قال: أحياهُم بِأعيانهم وزادَ إليهم مِثلَهم.وأخرج ابنُ جريرٍ عن الحسن وقتادةَ في قوله: {وآتيناه أهلَه ومِثلَهم معهم} قال: أحيا اللهُ له أهلَه بِأعيانهم وزاده اللهُ مِثلَهم".

(الدر المنثور، الأنبياء:83، ج:5، ص:654-655، ط: دار الفكر-بيروت)

"تفسير القرطبي"میں ہے:

"قولُه تعالى: (فكشفنَا ما بِه مِن ضُرٍ وآتيناه أهلَه ومِثلَهم معهم) قال مجاهدٌ وعكرمةُ: قِيل لأيُّوب ۔صلّى الله عليه وسلّم۔: قد آتينَاك أهلَك في الجنّة، فإن شِئتَ تركنَاهم لك في الجنّة، وإن شئت آتينَاكهُم في الدنيا. قال مجاهدٌ: فتركهَم اللهُ -عزَّ وجلّ- له في الجنّة وأعطاه مِثلَهم في الدنيا. قال النُحاس: والإسنادُ عنهما بذلك صحيحٌ. قلتُ: وحكاه المهدويُّ عن ابن عباسٍ. وقال الضحّاكُ: قال عبد الله بنُ مسعودٍ: كان أهلُ أيُّوب قد ماتُوا إلاّ امرأته فأحياهُم الله -عزَّ وجلَّ- في أقلَّ مِن طرف البصر، وآتاه مِثلَهم معهم. وعن ابن عباسٍ أيضاً: كان بنُوه قد ماتُوا فأحيَوا له وولدَ له مِثلَهم معهم. وقاله قتادةُ وكعب الأحبارُ والكلبيُّ وغيرُهم. قال ابنُ مسعودٍ: ماتَ أولادُه، وهم سبعةٌ مِن الذُّكور وسبعةٌ مِن الإِناث فلما عُوفي نُشروا له، وولدتْ له  امرأتُه سبعةَ بنينَ وسبعَ بناتٍ. قال الثعلبيُّ: وهذا القولُ أشبهُ بِظاهر الآية. قلتُ: لأنَّهم ماتُوا ابتلاءً قبلَ آجالِهم حسبَ ما تقدَّم بيانُه في سُورة"البقرة" في قصّة:" الذين خُرجوا مِن دِيارهم وهم ألوفٌ حذرَ الموتِ" [البقرة: 243]. وفي قصّة السَّبعين الذين أخذتْهم الصَّعقة فماتُوا ثم أحيَوا، وذلك أنّهم ماتُوا قبل آجالِهم، وكذلك هُنا، واللهُ أعلم".

(تفسير القرطبي، سورة الآنبياء:83، 11/326، ط: دار الكتب المصرية- القاهرة)

"التفسير الكبير للرازي"میں ہے:

"ثُمّ قال تعالى: "ووهبنا له أهلَه" فقد قيل: هُم عينُ أهله وزيادةُ مثلِهم، وقيل: غيرُهم مثلُهم، والأوّل أولى؛ لأنّه هو الظاهرُ، فلا يجوزُ العدولُ عنه مِن غير ضرورةٍ ... أمّا قولُه: "ومِثلَهم معهم" فالأقربُ أنّه تعالى متّعه بِصحته وِبماله وقُواه حتّى كثُر نسْلُه وصار أهلُه ضِعفَ ما كان وأضعافَ ذلك".

(التفسير الكبير للرازي، سورة ص:45-48، 26/399، ط: دار إحياء التراث العربي-بيروت)

"بيان القرآن"میں ہے:

’’اور(بلا استدعاء) ہم نے ان کو ان کا کنبہ (یعنی اولاد جو اُن سے غائب ہوگئے تھے، قاله الحسن كما في الدر المنثور،يا مرگئے تھے، كما قال غيرُه)عطاء فرمایا (اس طرح سے کہ وہ ان کے پاس آگئے ،یا بایں معنی کہ اتنے ہی اورپیدا ہوگئے،  قاله عكرمة كما في فتح المنان)اور ان کے ساتھ  (گنتی میں) اس کے برابر اور بھی (دیے، خواہ اُن ہی کی صلب سے یاان کی اولاد کی صلب سے،كذا في الفتح عن كتاب أيوب)اپنی رحمتِ خاصہ کے سبب سے اور  عبادت کرنے والوں کے لیے یادگا ررہنے کے سبب سے (یعنی عابدین یاد رکھیں کہ اللہ تعالی صابروں کو کیسی جزاء دیتے ہیں)‘‘۔

(بیان القرآن، سورۃ الانبیاء، ج:۲، ص:۴۹۶)

"معارف القرآن"میں ہے:

’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت  ایوب علیہ السلام کے سات لڑکے ،سات لڑکیاں تھیں ، اس ابتلاء کے زمانے میں یہ سب مرگئے تھے، جب اللہ نے ان کو عافیت دی تو ان کوبھی دوبارہ زندہ کردیا اور ان کی اہلیہ سے نئی اولاد بھی اتنی ہی اور پیدا ہوگئی ، جس کو قرآن میں  وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ فرمایا ہے۔ثعلبی نے کہا کہ یہ قول ظاہرِ آیت ِ قرآن کے ساتھ اقرب ہے۔(قرطبی)بعض حضرات نے  فرمایا کہ نئی اولاد خود اپنے سے اتنی ہی مل  گئی جتنی پہلےتھی ، اور ان کے مثل اولاد سے اولاد کی اولاد ہے۔واللہ اعلم‘‘۔

(معارف القرآن،سورۃ الانبیاء، ج:۶،ص:۲۱۷، ط:ادارۃ المعارف کراچی)

"قصص القرآن"میں ہے:

’’آیت:"وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ "میں اہل وعیال کی عطاء کا جوذکر آیا ہے، کیااس سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالی نے ایوب علیہ السلام کی صحت کے بعد ان کے ہلاک شدہ اہل وعیال کی جگہ پہلے سے زیادہ ان کے اہل وعیال میں اضافہ کردیا، اور جو اہلِ خاندان منتشر ہوگئے تھےان کو دوبارہ ان کے پاس جمع کردیا۔یا یہ مقصد ہے کہ ہلاک شدگان کو بھی حیاتِ تازہ بخش دی اور مزید عطا کردیے۔ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے حسن اور قتادہ رحمہما اللہ  سے یہ دوسرے معنی نقل کیے ہیں اور شاہ عبد القادر صاحب نور اللہ مرقدہ کی بھی یہی رائے ہے۔اور امام رازی وابنِ حبان رحمہما اللہ کا رجحان پہلے معنی کی جانب ہے۔اور آیت میں دونوں معنی  کی گنجائش ہے‘‘۔

(قصص القرآن، ج:۲، ص:۵۶۱۔۵۶۰، ط:دار الاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100925

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں